یوم الحاق پاکستان کی حقیقت


نصابی و کتابی مطالعۂ پاکستان میں ہمیں پچھتر سال سے پڑھایا جا رہا ہے کہ انیس جولائی دو ہزار سینتالیس کو سری نگر میں قرارداد الحاق پاکستان پاس کی گئی تھی۔ اس دن یہ اجلاس آزاد کشمیر کے بانی صدر اور تحریک آزاد کشمیر کے متحرک و پرجوش راہنما سردار ابراہیم خان کی قیام گاہ محلہ آبی گزر واقع ہاوٴس بوٹ میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اراکین نے شرکت کی تھی اور کشمیریوں کے مستقبل کو پاکستان سے وابستہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی کشمیر بنے گا پاکستان کا معروف نعرہ متعارف کروایا گیا تھا۔

مگر سردار شوکت حیات کی معرکہ آرا کتاب ”گم گشتہ قوم“ اور بہت سی دوسری تاریخی کتب و دستاویزات میں حقائق اس کے بالکل برعکس تحریر کیے گئے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اس روز مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہو بھی جاتا تو اس میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کی منظور شدہ قرارداد خود مختار کشمیر ہی زیر بحث آتی۔ 28 مئی 1947 کو چودھری حمید اللہ نے جموں میں ایک دھواں دار پریس کانفرنس کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان سے الحاق مسلمانوں اور پاکستان سے الحاق ہندووٴں کو ناگوار گزرے گا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں سے علاحدہ رہنا چاہتے ہیں۔

جولائی میں جب مسلم کانفرنس کی قیادت جیل میں تھی، چودھری حمید اللہ قائم مقام صدر اور پروفیسر اسحٰق قریشی قائم مقام جنرل سیکریٹری تھے اس وقت بھی پروفیسر اسحٰق نے ماہنامہ ہیرالڈ کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے الحاق پاکستان کی قرارداد کو افسانہ طرازی اور من گھڑت قصہ قرار دیا تھا۔ پروفیسر صاحب کے مطابق بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی خود مختار کشمیر کی پرزور حمایت کی تھی۔

پروفیسر صاحب نے جب یہ بات جیل میں چودھری غلام عباس کو بتائی تو چودھری صاحب نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اراکین کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے خود مختار کشمیر کی قرارداد منظور کرنے کی تلقین کی۔ 18 جولائی 1947 کو چودھری حمید اللہ کی زیر صدارت مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں چودھری غلام عباس کا خط پڑھ کر سنایا گیا اور قائد اعظم سے ملاقات کا احوال بھی بتایا گیا۔ چنانچہ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے خود مختار کشمیر کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ کچھ روز قبل ریاست میں دفعہ 144 نافذ تھی، جس کی خلاف ورزی پر مسلم کانفرنس کے عہدیداروں اور اراکین کے وارنٹ گرفتاری پہلے ہی جاری ہوچکے تھے۔ جنرل کونسل کے ممبران کی تعداد دو سو تھی مگر ان میں سے بیشتر گرفتار یا روپوش ہوچکے تھے۔

19 جولائی کو سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر دو سو اراکین میں سے دو درجن بھی موجود نہیں تھے پروفیسر اسحٰق کہتے ہیں کہ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے میں نے بطور جنرل سیکریٹری اجلاس منسوخ کر دیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلم کانفرنسوں کے اجلاسوں میں الحاق پاکستان کی تجویز کبھی زیر غور آئی ہی نہیں تھی۔ سردار ابراہیم خان کے گھر میں جمع ہونے والے لوگوں کا حال نشستن، گفتن، برخواستن سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

درج بالا تاریخی حقائق کی روشنی میں روشن دماغ، تعلیم یافتہ، باشعور اور فہمیدہ و سنجیدہ حلقے الحاق پاکستان کی قرارداد کی اصلیت دیکھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments