عدلیہ کو سیاسی اکھاڑا نہ بنایا جائے



سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے خلاف درخواست سماعت کے لئے منظور کرنے کے لئے نصف شب کو عدالت کھولنے کا حکم دیا۔ ہفتہ کو اس درخواست پر غور کے بعد تین رکنی بنچ نے ایک مختصر حکم میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو مشکوک قرار دیا اور انہیں سوموار تک محض ’ٹرسٹی ‘وزیر اعلیٰ کے طور کام کرنے کی اجازت دی ہے۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے سلسلہ میں جو کچھ ہؤا وہ سیاسی پارٹیوں میں شدید بداعتمادی اور پارلیمانی اخلاقیات کی بجائے زور زبردستی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ ایک افسوسناک منظر تھا جہاں اکثریت کی حمایت رکھنے والے ایک شخص کو گھر بیٹھے ایک پارٹی صدر کے لکھے ہوئے خط کی بنیاد پر ان دس ووٹوں سے محروم کردیا گیا جن میں ان کا اپنا ووٹ بھی شامل تھا۔ تاہم ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے یہ رولنگ سپریم کورٹ کے 17 مئی کے فیصلہ کی روشنی میں دی تھی جس میں آئین کی شق 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ اگر پارلیمانی پارٹی کے منحرف ارکان پارٹی قیادت کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو ان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا حالانکہ آئین کی شق میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اب سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ صدارتی ریفرنس پر جاری کئے گئے فیصلہ میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر تھا جبکہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اسے پارٹی لیڈر کے خط پر فیصلہ سنا دیا ۔ اسی نکتہ کی بنیاد پر حمزہ شہباز کے انتخاب کو مشکوک قرار دیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ میں آج ہونے والی کارروائی کے حوالے سے دو پہلو اہم ہیں۔ ایک تو سپریم کورٹ کے ججوں نے اسی لفاظی پر وکلا سے پے در پے استفسارات کئے جو گزشتہ روز دوست محمد لغاری کی رولنگ کے بعد سے تحریک انصاف اور اس کے حامی عناصر کی طرف سے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتے دکھائی دیتی ہے۔ ان مباحث میں بھی یہ نکتہ خاص طور سے سامنے لایا گیا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمانی لیڈر کرسکتا ہے کہ کسی پارٹی کے ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کس کو ووٹ دیں گے۔ پارٹی لیڈر اس پر حکم صادر کرنے کا مجاز نہیں ۔ اس نکتہ کی بنیاد پر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو یک طرفہ اور متعصبانہ کہا جاتا رہا ہے۔ آج سپریم کورٹ کےسہ رکنی بنچ کے ججوں کا زور بھی اسی ایک نکتہ پر تھا۔ مختصر حکم میں بھی یہی وضاحت کی گئی ہے کہ آئین کی شق 63 اے اور صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلہ میں پارلیمانی پارٹی کہا گیا تھا۔ اس میں پارٹی لیڈر کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم سیاسی مباحث میں اٹھائی جانے والے نکتہ کو اگر سپریم کورٹ کے ججز بھی اسی طرح ریمارکس یا مختصر حکم کے متن میں شامل کریں گے تو یہ فرق کرنا مشکل ہوجائے گا کہ ایک اہم سیاسی مسئلہ پر سپریم کورٹ آئینی و قانونی باریکیاں سمجھنے کی کوشش کررہی ہے یا ایک خاص فریق کی حمایت میں سیاسی فیصلہ مسلط کرنا چاہتی ہے۔ یہ تاثر سپریم کورٹ کی شہرت اور ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران کی روشنی میں صحت مند نہیں ہوگا۔
اس معاملہ کا دوسرا نکتہ چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کی فوری منظوری اور ہفتہ کے روز اس پر طویل سماعت میں سامنے آنے والی ججوں کی رائے پر حکومتی نمائندوں اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا ردعمل ہے۔ مریم نواز نے آج کی عدالتی کارروائی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور واضح کیا کہ اگر عدالت یک طرفہ سیاسی فیصلے جاری کرتی رہے گی تو ہم سے تابعداری کی توقع نہ کی جائے۔ ایک بیان میں مریم نواز نے کہا کہ ’اگر انصاف کے ایوان بھی دھونس، دھمکی، بدتمیزی اور گالیوں کےدباؤ میں آ کر بار بار ایک ہی بنچ کے ذریعے مخصوص فیصلے کرتے ہیں، اپنے ہی دیے فیصلوں کی نفی کرتے ہیں، سارا وزن ترازو کے ایک ہی پلڑے میں ڈال دیتے ہیں تو ایسے یک طرفہ فیصلوں کے سامنے سر جھکانے کی توقع ہم سے نہ رکھی جائے۔ بہت ہو گیا۔ موجودہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سلسلہ اس عدالتی فیصلے سے شروع ہوتا ہے جس کے ذریعے آئین کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ووٹ دینے والوں کے ووٹ نہ گننے کا حکم جاری ہوا تھا۔ آج اس کی ایک نئی تشریح کی جا رہی ہے تاکہ اب بھی اسی لاڈلے کو فائدہ پہنچے جسے کل پہنچا تھا۔ نا منظور!‘۔
مریم نواز سپریم کورٹ کے سیاسی و آئینی فیصلوں کے بارے میں یہ سخت مؤقف اختیار کرنے والی واحد لیڈر نہیں ہیں۔ اس سے قبل وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ ’ نواز شریف کو سزا سنانے والے ججز ہمارے کیسز نہ سنیں۔ چیف جسٹس ہمارے لئے بھی انصاف کامعیار ٹھیک کریں۔ ان سے استدعا ہے کہ ہمارے کیسز فل بنچز سنیں۔ ماضی میں نواز شریف سمیت ن لیگ کی قیادت کو سزا سنانے والے ججز ہمارے خلاف کیسز کی سماعت کرنے والے بنچز میں بیٹھتے ہیں۔ اس سے عدالتی روایات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جن کیسز میں ن لیگ فریق ہے ان میں یہ ججز نہ بیٹھیں یا پھر فل کورٹ ان کیسز کی سماعت کرے، تاکہ انصاف ہوتا نظر آئے‘۔
مریم نواز اور رانا ثنااللہ کے بیانات کی گونج وفاقی کابینہ کے متعدد دیگر وزرا اور مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے بیانات میں بھی سنائی دی ہے۔ ملک کی اہم سیاسی پارٹیوں کی طرف سے سپریم کورٹ کے خلاف اس بداعتمادی سے موجودہ بحران میں کمی نہیں آسکتی۔ یہ تقاضا تو نہیں کیا جاسکتا کہ سپریم کورٹ ناانصافی کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر غور کرنے سے انکار کردے لیکن چیف جسٹس اور فاضل جج حضرات کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کسی سیاسی پارٹی یا اسمبلی اجلاس کا منظر پیش نہ کرنے لگے۔ آج کی سماعت کے دوران خاص طور سے پارلیمانی پارٹی کے نکتہ پر اصرار کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ مسلم لیگ (ق) میں پارٹی کا ڈھانچہ کیا ہے اور اس میں پارٹی قیادت اور پارلیمانی گروپ کی تخصیص کیوں کر کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب پارٹی لیڈر کے طور پر چوہدری شجاعت کے سوا کوئی نہیں دے سکتا لیکن سپریم کورٹ نے آج ان کے سوا ہر شخص کو فریق بنا لیا، اور اس سے ریکارڈ اور دلائل فراہم کرنے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے انتظامی و پارلیمانی ڈھانچے کو جانے بغیر فاضل جج حضرات کو ریمارکس یا مختصر حکم کی شکل میں کوئی بھی رائے دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ خاص طور سے جب چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کرنے والے سہ رکنی بنچ میں شامل تینوں جج وہی ہیں جو صدارتی ریفرنس پر فیصلہ کرنے والے بنچ کا بھی حصہ تھے اور جنہوں اس پانچ رکنی بنچ کے باقی دو ارکان کی ٹھوس اختلافی رائے کے باوجود یہ اصرار کیا تھا کہ منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ درست طریقہ ہے۔
واضح رہے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دینے والے بنچ کے دو ارکان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ آئینی شق 63 اے اپنے موضوع و متن میں مکمل ہے، اس کی مزید تشریح آئین کو از سر نو لکھنے کے مترادف ہوگی۔ ان دو فاضل جج حضرات کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ’آئین کی شق 63 اے اپنے طور پر مکمل کوڈ ہے۔ اس میں منحرف ارکان کے حوالے سے جامع طریقہ کار وضع کیا گیاہے۔ پارٹی سربراہ کی طرف سے ایسے منحرف ارکان کے خلاف شکایت پر الیکشن کمیشن ان کی رکنیت ختم کرسکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس شق کی مزید وضاحت آئین کو ازسر نو لکھنے اور اس کی دیگر شقات کو متاثر کرنے کے مترادف ہوگی۔ حالانکہ صدارتی ریفرنس میں بھی ان پر رائے نہیں مانگی گئی۔ تاہم اگر پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو وہ منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کرسکتی ہے‘۔
جیسا کہ دیکھا جاسکتا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے دو فاضل ججوں کے اس اختلافی نوٹ میں پارلیمنٹ کے اختیار کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن اکثریت نے منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ کو اس ریفرنس کی سماعت کے دوران بھی علم ہوگا اور بعد کے حالات نے اس کی صراحت بھی کردی ہے کہ صدر عارف علوی کا ریفرنس کسی آئینی ابہام کو دور کرنے کے بارے میں نہیں تھا بلکہ تحریک انصاف کے لئے سپریم کورٹ کی تائد حاصل کرنے کے لئے تھا۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ واضح طور پر اس جال میں آگئی اور بنچ کے دو ارکان کی قیمتی رائے کو قابل غور نہیں سمجھا گیا۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے وہی تین جج حضرات الفاظ کی تکنیکی وضاحت کرتے ہوئے منحرف ارکان کے ووٹ کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں جائز قرار دینے کا تاثر دے رہے ہیں۔
فاضل چیف جسٹس اگر چوہدری پرویز الہیٰ کی درخواست پر سماعت کے لئے اتنی عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے اور وہی تین جج اس درخواست پر سماعت نہ کرتے جنہوں نے پہلے شق 63 اے پر ایک متنازع فیصلہ دیا تھا تو شاید سپریم کورٹ پر سیاسی فیصلے کرنے کا الزام عائد نہ ہوتا۔ عدالت عظمی کی شہرت و وقار کے لئے موجودہ حالات میں چیف جسٹس کو خصوصی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کا یہ مطالبہ جائز اور اعلیٰ عدالتی روایت کے عین مطابق ہے کہ جو جج ایک خاص لیڈر اور پارٹی کے بارے میں مخالفانہ اور متنازع فیصلے دے چکے ہوں، وہ اس پارٹی کے معاملات کی سماعت سے خود ہی معذرت کرلیں تاکہ عدلیہ اور انصاف کے دامن پر داغ نہ لگے۔ یہ احتیاط بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس شکایت کو بھی قابل غور نہیں سمجھا کہ بنچ تشکیل دیتے ہوئے سینئر ججوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کہتے ہیں کہ یہ چیف جسٹس کا استحقاق ہے کہ وہ کن ججوں کو کس بنچ میں شامل کرتا ہے۔
ایک سے معاملات میں بار بار چند مخصوص ججوں کا ایک گروہ اگر متنازع فیصلے سناتا رہے گا تو شک و شبہ کی فضا میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں سیاسی قیادت اور عسکری اداروں کے بارے میں متعدد سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کو متنازعہ بنا کر ملک میں بہتری کی رہی سہی امید بھی ختم ہوجائے گی۔ خاص طور سے جب پنجاب اسمبلی میں رولنگ کے خلاف پٹیشن میں ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا گیا جبکہ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی غیر آئینی قرار دی گئی رولنگ پر سو موٹو لیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کا مؤقف سننے یا قومی اسمبلی کا ریکارڈ طلب کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ یہ دونوں معاملات مختلف اور اہمیت و ماہیت کے اعتبار سے علیحدہ ہیں لیکن زبان خلق پر آئی ہوئی باتوں کو کسی علمی یا قانونی دلیل سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments