عدلیہ کے اختیارات کے جائزہ لینے کا مطالبہ


معذرت سے کہنا پڑ رہا ہے کہ معزز عدالت اگر زیر نظر مقدمے کے میرٹ تک ہی محدود رہتی اور فیصلے سے قبل وزیراعلی پنجاب کے اختیارات اور مستقبل سے متعلق ریمارکس نہ آتے تو شاید حکومتی اتحاد کو عدلیہ سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنے میں اتنی آسانی نہ ہوتی۔ ان ریمارکس کے بعد ہی اتحادی حکومت نے وزیراعلی پنجاب کے مقدمے کی سماعت فل کورٹ سے کرانے کی استدعا کی تھی جسے معزز بینچ نے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور فرمایا کہ فل کورٹ صرف خاص نوعیت کے مقدمات میں بنایا جاتا ہے، جس کے بعد حکمران اتحاد نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔

معزز چیف جسٹس صاحب کے ذہن میں اپنے اس فیصلے کی یقیناً کچھ وجوہات ہوں گی مگر قانونی روایت بہرحال یہی ہے کہ کوئی فریق اگر کسی جج کے بارے تحفظات کا اظہار کر دے تو وہ جج ازخود مقدمے سے لا تعلقی اختیار کر لیتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کی یہ بات بجا ہوگی کہ سالانہ چھٹیوں کے سبب لارجر بینچ بنانا ستمبر سے قبل ممکن نہیں اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کو اتنے طویل عرصے تک سیاسی بحران میں مبتلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ تاہم حکمراں اتحاد کے ان تحفظات میں بھی جان ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ میں اس کی قیادت کے خلاف بیشتر مقدمات کی سماعت میں یہی ججز شامل رہے ہیں جس کا نتیجہ کبھی ان کے حق میں اچھا نہیں نکلا۔ ان حالات میں اگر معزز چیف جسٹس صاحب اپنا دل بڑا کر لیتے اور کوئی نیا بینچ تشکیل دے دیتے تو نہ صرف سیاسی ماحول سرد ہو جاتا بلکہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد میں بھی کمی نہ آتی۔

قانون کی حکمرانی عوام اور عدلیہ کے درمیان اعتماد کے رشتے پر استوار ہوتی ہے اور لوگ اس اعتماد کی وجہ سے ہی انصاف حاصل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ یہ اعتماد ختم ہو جائے تو لوگ انصاف کے لیے عدالت کے دروازے پر دستک دینے کی بجائے اپنے زور بازو پر انحصار کو ترجیح دیں گے۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز کا نظام عدل ایک بار پھر موضوع گفتگو ہے، اور اس کی وجہ ایک ہی نوعیت کے مقدمات میں اعلی ترین عدالت کی جانب سے سامنے آنے والے مختلف فیصلے ہیں۔ مثال کے طور پر آئین کے مطابق اراکین اسمبلی کو ووٹ کے متعلق ہدایات دینے کا اختیار پارٹی سربراہ کو حاصل ہے یا پھر پارلیمانی لیڈر کو؟ اس متعلق سپریم کورٹ کا سابقہ فیصلہ دیکھا جائے تو جائے تو پارٹی سربراہ کی ہدایت سے روگردانی کرنے والا رکن اسمبلی نہ صرف ڈی سیٹ ہو گا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔

حالانکہ آئین میں یہ بات کہیں درج نہیں کہ کسی منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔ جس وقت یہ صدارتی ریفرنس، جس کے نتیجے میں یہ حکم سامنے آیا تھا زیر سماعت تھا اس وقت ہم نے یہی لکھا تھا کہ ملکی آئین کسی شخص کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے بھی کسی بھی قانون میں جب تک جرم سر زد نہیں ہوتا محض کسی کی نیت پر شبہے کی بنیاد پر سزا نہیں سنائی جا سکتی۔ اس وقت مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بنیاد پر تحریک انصاف کے منحرف اراکین کا نہ صرف ووٹ شمار نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ڈی سیٹ بھی کر دیا گیا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ق لیگ کے صدر چوہدری شجاعت کا خط بھی حتمی تصور ہونا چاہیے تھا لیکن حالیہ فیصلہ سپریم کورٹ کے اپنے ہی گزشتہ فیصلے سے مختلف ہے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے میں اضافہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہوا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم جس وقت سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی تھی، اس کی سماعت کرنے والے آٹھ رکنی بنچ، جس میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے، نے واضح الفاظ میں لکھا تھا ”تریسٹھ اے کے تحت اس فیصلے کا اختیار کہ ووٹ کسے دینا ہے، پارٹی ہیڈ کا ہے“ ۔ سپریم کورٹ کے ان واضح فیصلوں کے بغیر بھی یہ رائے رکھنا کہ یہ اختیار پارٹی ہیڈ کا نہیں بلکہ پارلیمانی جماعت کا ہے، درست نہیں ہو سکتا۔

اس کی وجہ بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ آئین میں لفظ ”پارلیمانی جماعت کی ڈائریکشن“ استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پارلیمانی جماعت کو یہ ڈائریکشن کون دے گا؟ ایک جواب تو یہی ہے کہ سیاسی جماعت کا سربراہ ہی یہ ڈائریکشن دے سکتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ اختیار پارلیمنٹ میں موجود کسی سیاسی جماعت کے ممبران کی باہمی اکثریت کا ہے۔ یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ووٹ کے بارے ہدایت کا حق محض پارٹی سربراہ کی صوابدید پر چھوڑنے سے سیاسی جماعتوں میں آمرانہ سوچ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

اس کے ساتھ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی رکن پارلیمنٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کے نام پر ہی ووٹ لے کر منتخب ہوتا ہے۔ ویسے بھی تریسٹھ اے میں درج ہے کہ یہ قدغن وزارت عظمی/اعلی کے الیکشن یا عدم اعتماد اور فائنانس بل پر لاگو ہوگی۔ یعنی ہر ووٹنگ پر نہیں بلکہ صرف تین انتہائی غیر معمولی معاملات کے وقت رکن پارلیمنٹ اس کا پابند ہے۔ لہذا ہمارے سیاسی حالات میں منطقی بات یہی ہوگی کہ پارٹی سربراہ خواہ وہ پارلیمنٹ کا رکن ہو یا نہیں کم از کم ان تین مواقع پر اس کی ہدایت ہی مقدم ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کی حالیہ تشریح سے بادی النظر میں آرٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں ہمیشہ تین چار یا دس نشستیں رکھنے والی جماعتیں بھی موجود رہی ہیں۔ ہمارے مخصوص سیاسی ماحول میں پارلیمنٹ میں بننے والے نمائندگی کے تناسب میں یہ جماعتیں فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ فرض کریں ان چھوٹی جماعتوں کے چند ارکان اپنے تئیں کسی دھونس یا لالچ میں یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ پارٹی ڈائریکشن نہیں مانیں گے اور خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کسے ووٹ دینا ہے تو نہ صرف پارٹی سربراہ بے اختیار ہو گا بلکہ اس طرح لوٹا سازی کی نئی فیکٹریاں اور مزید چور دروازے کھلیں گے۔ اس سے قبل تو کسی نہ کسی سطح پر ضمیر فروش ارکان اسمبلی کو کوئی ڈر خوف رہتا تھا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد وہ بھی ختم ہو جائے گا۔

چوہدری پرویز الہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مدد سے پنجاب کے وزیراعلی تو بن گئے ہیں بد قسمتی سے مگر اس فیصلے نے خود سپریم کورٹ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ تمام بار کونسلز کی طرف سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر موجود سینئر ترین جج قاضی فائز عیسی کی طرف سے لکھے گئے خط کے بعد عدلیہ کے اندر موجود تقسیم واضح ہو چکی ہے اور یہ تاثر مزید گہرا ہو گیا ہے کہ کہیں نہ کہیں اختیارات کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

جمہوری نظام میں پارلیمان سپریم ادارہ ہے اور قانون سازی اس کا اختیار ہے۔ بد قسمتی سے مگر وکلاء تحریک کے بعد ہماری عدلیہ نہایت طاقتور ہو چکی ہے اور پارلیمان کی حدود میں مداخلت اس کا معمول بن گیا ہے۔ پارلیمان کے اختیار میں بار بار کی مداخلت سے اب پورے جمہوری نظام کے انہدام کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ بار کونسلز کا مطالبہ بالکل درست اور بر محل ہے اور جمہوری نظام کی بقا کے لیے پارلیمنٹ پر فرض ہے کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات کسی قاعدے میں لانے کے لیے جلد از جلد قانون سازی کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments