”منحرفین کے ووٹ نہیں گنے جا سکتے“


اس میں تو کسی قانون دان یا جج کو کوئی اختلاف نہیں کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کسی رکن کا پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونے یا کوئی دوسری پارٹی جوائن کر لینے یا پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف مذکورہ آرٹیکل میں درج معاملات پر ووٹ دینے پر ”پارٹی ہیڈ“ چاہے تو مذکورہ رکن کو شو کاز نوٹس دے کر، صفائی کا موقع فراہم کرنے کے بعد ، اگر سمجھے کہ ”انحراف“ ہوا ہے تو مذکورہ رکن کو ”منحرف“ ڈیکلیئر کر سکتا ہے اور پھر ہی اس کی اسمبلی رکنیت کے خاتمہ کی سفارش سپیکر اور الیکشن کمیشن کو بھجوا سکتا ہے۔

گویا آئین کے مطابق رکن منحرف اسی وقت تصور ہو گا جب پارٹی ہیڈ ڈیکلیئر کرے گا۔

پارٹی ہیڈ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا ڈیکلیئر کرنے سے پہلے شو کاز نوٹس دے کر رکن کو صفائی کا موقع فراہم کرے۔

حیران کن بات ہے کہ اتنی واضح اور سادہ آئینی دفعہ کے باوجود یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا گیا کہ رکن کو شو کاز نوٹس جاری ہو یا نہ ہو، صفائی کا موقع فراہم کیا جائے یا نہ کیا جائے، اسے آئین کے مطابق مجاز عہدیدار کی جانب سے منحرف ڈیکلیئر کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن اس کا ووٹ نہیں گنا جائے گا۔

بھئی اگر وہ آئین کے مطابق مجاز عہدیدار کی جانب سے منحرف ڈیکلیئر ہی نہیں ہوا تو کیسے فیصلہ ہو گا کہ ووٹ نہیں گننا۔ ووٹ گننا تو سپیکر کی ذمہ داری ہے لیکن منحرف ڈیکلیئر کرنے کا اختیار پارٹی ہیڈ کے پاس ہے اور اس کے لیے پہلے رکن کو صفائی کا موقع دینا بھی ضروری ہے۔ لیکن آپ نے یہ سب مکمل ہونے سے پہلے ہی سپیکر کو اختیار دے دیا کہ وہ بغیر شو کاز کیے، بغیر صفائی کا موقع دیے عملاً موقع پر ہی اسے منحرف ڈیکلیئر کر کے اس کا ووٹ نہ گنے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ آئین کی طرف سے پارٹی ہیڈ کو دیا گیا اختیار سپیکر کو دے دیں اور رکن سے صفائی پیش کرنے کا آئینی حق اس سے چھین لیں۔ ”ووٹ نہیں گنا جائے گا“ کا حکم صادر فرما کر آپ نے تو شوکاز نوٹس اور صفائی کا موقع دے کر منحرف ڈیکلیئر کرنے یا نہ کرنے والا پورا آئینی ضابطہ، پارٹی ہیڈ کا آئینی اختیار اور رکن کا آئینی حق ہی بے معنی بنا دیا ہے اور ایک طرح سے اسے آئین سے حذف ہی کر دیا ہے۔ کیا آپ واقعی تشریح کے نام پر آئینی اختیارات اور آئینی حقوق کو حذف کر سکتے ہیں۔ اگر یہ کر سکتے ہیں تو پھر تو آپ آئین کے کسی حصہ کو بھی حذف کر سکتے ہیں۔ کسی کے بھی اختیارات کسی کو بھی دے سکتے ہیں، کسی کو بھی صفائی پیش کرنے اور دفاع کے حق سے محروم کر سکتے ہیں۔

’ووٹ نہ گننا ”تو اسی صورت میں ہی ممکن ہے جب یہ فرض کر لیا جائے کہ انحراف ثابت شدہ ہے۔ جب انحراف ثابت شدہ ہے تو رکنیت کے خاتمہ کے لیے الیکشن کمیشن کی کارروائی اور الیکشن کمیشن کی طرف سے رکن کو ایک بار پھر دفاع پیش کرنے کا موقع دینے کی بھی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔

یا تو ہمیں سمجھا دیجئے کہ ووٹ نہ گننے کا مطلب منحرف ڈیکلیئر کرنا یا انحراف کو ثابت شدہ تصور کرنا ہر گز نہیں ہے، ریویو تو آپ کے پاس پینڈنگ ہے ہی۔ ممکن ہے کسی دن آپ ”ووٹ نہیں گنے جا سکتے“ والی ”غیر ارادی غلطی“ سے بھی رجوع کر لیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments