موسیقار نوشاد، استاد بڑے غلام علی خان اور فلم مغل اعظم


ہندوستان کے مشہور موسیقار نوشاد ایک ٹی وی انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ”میں بیٹھ کر گانا نہیں بناتا، میری عادت ہے کہ جب کوئی دھن میرے ذہن میں آ جائے تو پھر میں کھڑے ہو کر چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ انمول گھڑی فلم کا یہ گانا بنانے کے لئے میں کئی میلوں چلا ہوں گا۔

”دھن تھی کہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ انسان کے شعور میں جو کچھ ہوتا ہے، وہی لا شعور میں بھی آ جاتا ہے۔ میں ایک دن اس دھن پر تھوڑا کام کر کے سویا تو خواب میں یہ گانا مکمل کر لیا۔

وہ مشہور گانا نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ ہوا جس کے بول تھے ”آواز دے کہاں ہے، دنیا میری جواں ہے“ ۔ یہ گانا اب تک اتنا ہی مشہور ہے جتنا 1946 میں تھا۔

نوشاد لکھنو میں پیدا ہوئے اور دس سال کی عمر سے ہی موسیقی میں آ گئے۔ اس کی وجہ وہ ہر سال ہونے والے حاجی وارث علی شاہ کے مزار پر عرس کو بتاتے ہیں۔ یہ عرس ہر سال بارہ بنکی میں ہوتا تھا جو لکھنو سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔

اس عرس میں ایک بانسری والا بانسری بجاتا تھا جس کو سن کر نوشاد کھو سے جاتے تھے۔ نوشاد کہتے ہیں کہ اس بانسری والے کی دھنوں کو میں کئی مرتبہ اپنی فلموں میں استعمال کر چکا ہوں۔

ایک فلم میں دلیپ کمار کو ستار بجاتے ہوئے ایک گانا گانا تھا۔ نوشاد اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر تھے۔ نوشاد نے کہا کہ ایک مشہور ستار نواز کے ہاتھ بجاتے ہوئے دکھا دیں گے لیکن شکل نہیں دکھائے گے۔

دلیپ کمار نے نوشاد کو کہا کہ یہ پورا ستار میں ہی بجاؤں گا اور میرا ہی کلوز اپ اور ہاتھ ہوں گے۔ مجھے تھوڑے ریاض کی ضرورت ہے۔ لہذا اس گانے کی سب سے آخر میں عکس بندی ہو گی۔ جب تک میرا ریاض مکمل ہو جائے گا۔

ایک مرتبہ اسی فلم کی شوٹنگ کے دوران نوشاد بتاتے ہیں کہ کھانے کا وقفہ ہوا تو دلیپ کمار نے مجھے دیکھ کر کہا آئیے نوشاد صاحب میرے ساتھ کھانا کھائیں۔ نوشاد صاحب بیٹھ گئے۔ کھانا شروع ہوا تو نوشاد صاحب نے دیکھا کہ دلیپ کمار کی انگلیوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے، ارے نوشاد صاحب آپ کے گانے کی مشق ہو رہی ہے۔ ستار بجانا آسان کام نہیں ہے۔ یہ سن کر ہم دونوں بہت ہنسے۔

اسی طرح مشہور اداکار راجیندر کمار بتاتے ہیں کہ میرے محبوب فلم کے پروڈیوسر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ نوشاد کیا کر رہا ہے۔ جو گانا فلم کی جان ہے، اس کو صرف چار موسیقی بجانے والوں کے ساتھ ریکارڈ کر رہا ہے۔ پورا آرکسٹرا کہاں ہے۔

راجیندر کمار ہی نوشاد کو اس فلم میں لے کر آئے تھے تو پروڈیوسر نے گلہ بھی فلم کے ہیرو سے کیا۔ راجیندر کمار نے نوشاد صاحب سے پوچھا نوشاد بھائی یہ گانا فلم کی جان ہے، پورے آرکسٹرا سے ریکارڈ نہیں کر لیں؟ نوشاد نے جواب دیا سر یہ گانا فلم کا ہیرو ایک چھوٹے سے کمرے سے اٹھ کر بہت کم لوگوں کے درمیان گا رہا ہے، فل آرکسٹرا اس منظر کے ساتھ نہیں جائے گا۔ راجیندر کمار اور پروڈیوسر راضی ہو گئے اور پھر یہ گانا رفیع صاحب کی آواز میں ریکارڈ ہوا تو مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

نوشاد نے فلم پاکیزہ اور مغل اعظم کی بھی موسیقی ترتیب دی۔ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف تھے۔ فلم کے ایک منظر میں اکبر کے دربار میں تان سین گا رہا ہوتا ہے۔ کے آصف نے نوشاد سے پوچھا کہ یہ گانا آج کے دور میں کون گا سکتا ہے۔

نوشاد نے جواب دیا کہ اس وقت تان سین گانا تھا تو اس، وقت بھی آج کا تان سین گائے گا لیکن وہ فلموں کے لیے گاتے نہیں ہیں۔ کے آصف نے پوچھا آج کا تان سین کون ہے، نوشاد نے کہا استاد بڑے غلام علی خان صاحب۔ کے آصف نے کہا آپ خان صاحب سے ملاقات کا وقت لے لیں، گانا تو وہی گائیں گے۔

کے آصف دو انگلیوں میں پکڑ کر سگریٹ پیتے تھے اور اس کی راکھ چٹکی سے جھاڑتے تھے۔ جب یہ دونوں استاد بڑے غلام علی خان کے گھر پہنچے تو نوشاد نے مدعا بیان کیا۔

استاد بڑے غلام علی خان نے کہا نوشاد صاحب آپ کو پتا ہے کہ میں فلموں کے لئے نہیں گاتا، ہاں کوئی سماج سیوا کا پروگرام ہو تو میں حاضر ہوں۔ کے آصف نے سگریٹ کی راکھ چٹکی سے جھاڑتے ہوئے کہا استاد صاحب گانا تو آپ ہی گائیں گے۔

استاد بڑے غلام علی خان نے کے آصف کی طرف دیکھا اور پھر نوشاد صاحب کو دوسرے کمرے میں لے گئے اور کہا یہ کون حضرت ہیں؟ نوشاد نے کہا کہ یہ آدمی ہر صورت آپ سے ہی گوانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب نے کہا میں قیمت ایسی بتاؤں گا کہ یہ بھاگ جائے گا۔ نوشاد نے کہا حضور اس کا آپ کو حق پے۔

استاد بڑے غلام علی خان کمرے میں واپس آئے اور کے آصف کو کہا کہ میں گانا گانے کے پچیس ہزار لوں گا۔ اس وقت بہت مشہور سے مشہور گانے والا پانچ سو یا ہزار روپے لیتا تھا۔ یہ بات تقریباً ستر سال پہلے کی ہے۔

پچیس ہزار سن کر کے آصف نے چٹکی بجاتے ہوئے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور جیب سے دس ہزار روپے پیشگی ادائیگی کرتے ہوئے کہا خان صاحب گانا تو آپ ہی گائیں گے۔

جب گانا ریکارڈ ہونے لگا تو ایک مقام پر کے آصف نے نوشاد سے کہا کہ دلیپ کمار اور مدھو بالا کے درمیان اس گانے کی عکس بندی میں کوئی مکالمہ نہیں ہے، صرف تان سین کا یہ گانا پیچھے بج رہا ہے لہذا خان صاحب سے درخواست کیجئے گا کہ جب دلیپ کمار مدھو بالا کے قریب ہوں تو ذرا لہجہ اور سر نرم رکھیں۔

نوشاد نے خان صاحب سے جب اس بات کا ذکر کیا تو استاد بڑے غلام علی خان صاحب نے کہا پھر تو مجھے وہ منظر دیکھنا پڑے گا، میں تب ہی گاؤں گا۔ لہذا پورے سین کی عکس بندی کی گئی اور پھر وہ سین پروجیکٹر پر چلایا گیا۔ بڑے خان صاحب، دلیپ کمار اور مدھو بالا کے اس سین کو دیکھتے جاتے اور سر لگاتے جاتے۔ اس طرح یہ گانا مکمل ہوا۔ خان صاحب نے گانے کے بعد اپنا کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا۔ وہ بہت بڑے کردار والے لوگ تھے، اب ایسے لوگ ملنا مشکل ہیں۔

کے آصف نے پرتھوی راج کے لئے جنہوں نے مغل اعظم میں اکبر بادشاہ کا کردار ادا کیا تھا، چار ہزار روپے کے خاص جوتے بنوائے تھے۔ اس زمانے میں چار ہزار روپے کئی لاکھ کے برابر تھے۔ جب عکس بندی ہو گئی تو پرتھوی راج نے شاٹ دیکھے تو کے آصف سے کہا کہ آپ نے اتنے مہنگے جوتے بنوائے لیکن کسی بھی منظر میں جوتے نظر نہیں آرہے۔

کے آصف نے چٹکی بجاتے ہوئے سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے کہا کہ آپ کو جوتے پہن کر کیسا لگا؟ پرتھوی راج نے کہا کہ بہت اچھا لگا، میں واقعی اپنے آپ کو بادشاہ محسوس کر رہا تھا۔ میری چال میں وہ بادشاہوں والا مان، تکبر اور ادا تھی۔

کے آصف نے پھر چٹکی بجاتے ہوئے سگریٹ کی راکھ جھاڑتے ہوئے کہا بس، میرا مقصد جوتے دکھانا نہیں، صرف آپ کو بادشاہ دکھانا تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments