آزاد کشمیر میں نئے سیاسی امکانات


ایک محض ایک ہی ہوتا ہے اور ہر کوئی ایک ہی ہوتا ہے۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ ایک کے ساتھ صفر مل جائے تو دس کا ہندسہ بنتا ہے اور اگر ایک کے ساتھ دو صفر مل جائیں تو ایک سو کا ہندسہ بن جاتا ہے، یعنی سو فیصد۔ کسی بھی شعبے میں ناکام شخص ایک منفرد تجربے کا حامل ہوتا ہے اور وہ تجربہ یہ کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناکام کیوں ہوا۔ لیکن وہ اپنے اس تجربے سے خود اپنی زندگی نہیں بدل سکتا کیونکہ وہ صفر کے مقام پہ پہنچ چکا ہوتا ہے، اسے ضرورت ہوتی ہے ایک کی اور اس ایک کو ضرورت ہوتی ہے دو صفر کی۔ جب یہ تینوں مل جائیں تو ایک سو کا ہندسہ بن جاتا ہے، یعنی سو فیصد، سو فیصد کا مطلب ہے کہ کامیابی کا مکمل امکان۔

آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون آزاد کشمیر کے سابق صدر راجہ فاروق حیدر خان نے چند دن قبل ایک بیان میں کہا کہ ”ریاست کوئی بیت المال یا خالصہ سرکار نہیں جو انڈیا اور پاکستان تقسیم کرتے پھریں“ ۔ راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ مسئلہ کشمیر کی صورتحال، 15 ویں آئینی ترمیم، ٹور ازم اتھارٹی اور دیگر اہم امور کے حوالے سے آزاد کشمیر کی ”آل پارٹیز کانفرنس“ بلائی جائے گی۔ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر اور مسلم لیگ نون آزاد کشمیر وزارت امور کشمیر کی طرف سے تجویز کردہ 15 ویں آئینی ترمیم اور ٹورازم اتھارٹی کو تسلیم نہ کرنے کے بیانات دینے تک ہی محدود ہیں لیکن فاروق حیدر خان نے اس معاملے پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک سیاسی عمل کا آغاز کیا ہے۔

وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس یوں تو اپنے متعدد بیانات میں 15 ویں مجوزہ ترمیم کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے آ رہے ہیں تاہم انہوں نے وزارت امور کشمیر کی ہدایت پر آزاد کشمیر کے تین سرکاری افسران کے نام وزارت امور کشمیر کی کمیٹی کے لئے ارسال کیے اور ساتھ ہی اسی معاملے پہ آزاد کشمیر کے وزراء کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کی 15 ترمیم کے حوالے سے دلچسپی اس بات میں ہے کہ آزاد کشمیر کابینہ کے وزراء اور مشیران کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے تاہم وزارت امور کشمیر کی طرف سے ارسال کردہ آئینی ترمیم کے مسودے میں وزراء اور مشیران کی تعداد میں اضافے کو کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان حکومت صرف آزاد کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 31، 33 اور 56 میں ترمیم کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو تجویز کر سکتی ہے، مجوزہ 15 ترمیم تجویز کرنے کا حکومت پاکستان کو آئینی و قانونی اختیار نہیں ہے۔ آزاد کشمیر حکومت ترامیم کو مسترد کرنے کے بجائے امور کشمیر سے انگیج ہوتے ہوئے سہولت کاری کر رہی ہے۔ وزراء، مشیران کی تعداد میں اضافے کی ترمیم کرنے کے لئے حکومت پاکستان سے منظوری کی کوئی ضرورت نہیں، ایسی ترمیم آزاد کشمیر حکومت از خود کر سکتی ہے۔

یوں وزیر اعظم تنویر الیاس کی طرف سے مجوزہ 15 ترمیم کو قبول نہ کرنے کے اعلانات بے معنی ہو جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی سابق مسلم لیگی حکومت کے دور میں بھی حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کے اختیار ات میں کمی کرتے ہوئے کشمیر کونسل کو دوبارہ مالیاتی و انتظامی اختیارات دینے کے لئے آئینی ترمیم کا مسودہ ارسال کیا گیا تھا جسے اس وقت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں مسترد کر دیا تھا اور کابینہ اجلاس کے بعد اجلاس کے منٹس و بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ”آزاد کشمیر کابینہ حکومت پاکستان کے آئینی ترامیم کے مسودے کو مسترد کرتی ہے“ ۔ وزیر اعظم تنویر الیاس سابق حکومت کی طرح ہمت کر سکیں تو کابینہ اجلاس کی منظوری سے یہ فیصلہ اور اعلان کریں کہ آزاد کشمیر کابینہ نے ان ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔

راجہ فاروق حیدر خان نے اپنی اعلان کردہ آپ پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں سب سے پہلے مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان سے ان کے گھر مجاہد منزل میں ملاقات کرتے ہوئے انہیں کانفرنس کے لئے مدعو کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی رہنماؤں کے درمیان کن امور پر کیا اور کس حد تک اتفاق ہوتا ہے اور کن کے درمیان کس قسم کا اشتراک عمل سامنے آتا ہے۔ یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کا وجود مسلم کانفرنس سے ہی ہوا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے سیاسی راستے تو جدا ہوئے لیکن باہمی احترام کے رشتے یوں استوار رہے کہ جب بھی آپس میں ملیں، کبھی شکوہ شکایت، ناراضگی کا تاثر نہیں ملتا بلکہ باہمی تعلقات کے پرانے طور طریقے عود آتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم کانفرنس سے جب بھی اور جو بھی الگ ہوئے، بنیادی وجہ یہی رہی کہ یہ سمجھا گیا کہ شخصیات کو حیثیت اور اہمیت کے مطابق جائز حصہ نہیں دیا جا رہا۔ آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست نے خطے کے عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی اسی بنیاد پر گروپ بندی اور تقسیم کی راہ پہ ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں ہوتی، کوئی دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، ہر بات کے امکان ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

جب انتشار بڑھ جاتا ہے، جب فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں، جب آپس کے اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے تو نئے امکانات کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اور جو قبل از وقت خطرات کو بھانپ کر مناسب فیصلے کر لیتا ہے، اسے صاحب بصیرت کہتے ہیں۔ جو انا پرستی، مفاد میں محدود ہو جائے، دل اور دماغ کی تنگی میں مبتلا ہو جائے، وہ نقصان اٹھاتا ہے۔ یہی سیاست ہوتی ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments