تمباکو کی کاشت کاری اور صحت کو لاحق خطرات: ’پیسے تو آ جاتے ہیں لیکن صحت جا رہی ہے‘

فواد علی - صحافی


عبدالحلیم خان 18 برس کے تھے جب وہ اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں تمباکو کی فصل پر سپرے کر رہے تھے۔ وہ برسات کا مہینہ تھا اور سخت گرمی تھی کہ اچانک ان کا دم گھٹنے لگا اور وہ گر پڑے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میری آنکھیں دو دن بعد ہسپتال میں کھلیں، مجھے سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے سانس کی بیماری ہے اور سختی سے کیڑے مار ادویات سے دور رہنے کی تاکید کی کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق کیڑے مار ادویات کی وجہ سے میری سانس کی نالی اور پھیپھڑے متاثر ہو گئے تھے۔‘

عبدالحلیم اب 28 برس کے ہیں لیکن 10 سال بعد بھی کیڑے مار ادویات کے قریب جانے سے سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔

تاہم یہ مسئلہ صرف عبدالحلیم کے ساتھ نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے وہ علاقے جہاں تمباکو کاشت کیا جاتا ہے، وہاں رہنے والوں میں سانس، دل اور جِلد کی بیماریاں عام ہیں۔ کسی کو سانس کا مسئلہ ہے تو کسی کو گردوں اور کسی کو جلد کی الرجی۔

واضح رہے کہ تمباکو کی کاشت سے خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع کے ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے۔

عبدالحلیم کہتے ہیں کہ ’ان علاقوں میں سینکڑوں بچے، مرد اور خواتین کھیتوں اور بھٹیوں میں کام کرتے ہیں، اگر ان بچوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرایا جائے تو خدشہ ہے کہ ان میں نکوٹین اور مختلف کیمیائی اجزا کی بھاری مقدار پائی جائیگی اور انھیں مختلف طبی مسائل کا بھی سامنا ہوگا۔‘

’اس فصل نے کاشتکاروں کی زندگی بدل ڈالی لیکن نقصانات پر دھیان نہیں دیا‘

پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے مطابق پاکستان میں تمباکو کی سالانہ پیداوار 113 ملین کلوگرام ہے جو 50 ہزار 787 ہیکٹر رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ یہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ، صوابی، مردان، بونیر اور چارسدہ کے اضلاع میں کاشت کی جاتی ہے۔

چونکہ تمباکو نقد رقم فراہم کرنے والی فصل ہے، اس لیے ان علاقوں میں لوگوں کا معیار زندگی صوبے کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہتر ہے۔

بونیر سے تعلق رکھنے والے تمباکو کے کاشتکار حاجی فضل غنی کے مطابق سنہ 1950 کے اوائل میں جب یہ فصل بونیر میں متعارف کرائی گئی تو اس وقت بونیر میں غربت اور پسماندگی اپنی انتہا پر تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس فصل نے کاشتکاروں کی زندگی بدل ڈالی لیکن طویل المدتی تناطر میں صحت اور ماحول کو پہنچنے والے نقصانات پر کبھی کسی نے دھیان نہیں دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جتنے پیسے ہم اس فصل سے کماتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ نقصان صحت اور ماحولیاتی آلودگی کی شکل میں اٹھا رہے ہیں۔‘

غیر معمولی مقدار میں کیڑے مار ادویات کا استعمال

زرعی شعبے کے ماہرین کے مطابق دوسری فصلوں کی نسبت تمباکو پر حد سے زیادہ اور انتہائی تیز قسم کے کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں صحت کے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔

یہ کیمیکلز انسانی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور یہ جسم میں کئی طریقوں سے داخل ہوتے ہیں جیسے سانس، جلد اور کھانا کھانے کے دوران۔

ٹوبیکو گروورز ایسوسی ایشن کے صدر لیاقت یوسفزئی کے مطابق غیر معیاری پمپس اور کیمیکلز کا استعمال، سپرے کرتے وقت خفاظتی اقدامات کا نہ ہونا اور سپرے کرنے کے بعد اسی کھیت میں کام کرنے کی وجہ سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

غیر معیاری کیمیکلز کی خرید و فروخت اگرچہ سختی سے منع ہے تاہم رجسٹرڈ کیمیکلز قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کاشتکاروں کی قوت خرید سے باہر ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ غیر رجسٹرڈ ڈیلرز سے غلط اور غیر معیاری کیمیکلز لیتے ہیں۔

ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر پلانٹ پروٹیکشن خیبر پختونخوا کے محمد نوید نے اس حوالے سے بتایا کہ معیار برقرار رکھنے کے لیے ڈیپارٹمنٹ نے ہر ضلع میں ایک سبجیکٹ میٹر سپشلسٹ تعینات کیا ہے جو باقاعدگی سے ان کیمکلز کی کوالٹی چیک کرتا ہے، شکایات اور اس کے ازالے کے لیے ایک مکینزم بنایا ہے لیکن مسئلہ ان کیمیکلز کے استعمال اور کاشتکاروں کا ادارے کے ساتھ عدم تعاون کا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اکثر کاشتکار بغیر مرض جانے اور مختلف حشرات کو ایک ساتھ مارنے کے چکر میں کئی کیمیکلز مکس کر کے سپرے کرتے ہیں جس سے ان کی کیمسٹری بدل جاتی ہے اور وہ انسانی صحت کے لیے زیادہ خطرناک بن جاتے ہیں۔ صبح سپرے کر کے دوپہر کو اسی کھیت میں کام کرنا تو ایک معمول ہے جس سے یہ کیمیکل ان کے جسم میں چلے جاتے ہیں۔‘

محمد نوید کے مطابق فرٹیلائزر تو صرف مٹی اور پانی کو آلودہ کرتے ہیں لیکن کیڑے مار ادویات مٹی، پانی، ہوا اور پورے ماحول کی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔

زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ان کیمیکلز کے صحت پر اثرات سے متعلق کوئی جامع تحقیق موجود نہیں لیکن برازیل جو دنیا میں ٹوبیکو پیدوار میں دوسرے نمبر پر ہے، وہاں اس حوالے سے کافی کام ہوا ہے۔

پان امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کیڑے مار ادویات میں آرگینوفاسفیٹ کا استعمال پاکستان سمیت دنیا بھر میں عام ہے جس سے برازیل میں سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں تاہم محمد نوید کے مطابق چونکہ پاکستان میں اس کیمیکل کا متبادل نہیں، اس لیے استعمال کے وقت احتیاط ہی اسے اثرات سے بچنے کا واحد حل ہے۔

بونیر کے نور الزیب نے بی بی سی کو بتایا کہ کاشتکار سے زیادہ ڈیلرز اور ان سے زیادہ کمپنیز کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان کے گاؤں میں ایک کاشتکار نے ایک دن کئی کیمیکلز مکس کر کے سپرے کیا جس کے بعد بارش ہوئی اور وہ کیمیکلز ملا پانی ایک قریبی نالے میں جا گرا جس سے ہزاروں مچھلیاں مر گیئں۔

بارش یا نمی کی صورت میں نکوٹین پتوں کی اوپری سطح پر آ جاتا ہے اور کام کرنے والے کے جسم میں داخل ہوتا ہے جو ایک طویل عرصے تک ان کے جسم میں موجود رہتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں کاشتکار ان کے اثرات کو سمجھ نہیں پاتے اور اس کو معمول سمجھ لیتے ہیں۔

صوابی کے باچا خان میڈیکل کمپلکس میں پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر سعید عابد آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ جلد کا زرد ہونا، سر درد، بلڈ پریشر کا کم ہونا، چکر آنا، الٹیاں کرنا، معدے کی بیماریاں، الرجی، سانس اور دل کے امراض تمباکو کے کاشتکاروں میں عام ہیں۔

طویل المدتی تناظر میں پھیپھڑوں کا کام کرنا چھوڑنا، دل کے امراض، دمہ اور جلد کی بیماریاں زیادہ درجہ حرارت، ہوا، پانی اور جلد کے ذریعے کیمیکلز کا جذب ہونا اور ایک خاص حد سے بڑھنا، اعصاب کا کام چھوڑنا جیسے مسائل ان علاقوں میں عام ہیں جہاں تمباکو کاشت کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں آخر چائے کی کاشت کاری بڑے پیمانے پر کیوں کامیاب نہیں؟

منشیات کی پیداوار کے لیے بدنام پاکستانی علاقہ جہاں اب مشروم اگائے جا رہے ہیں

لوبسٹر اور اوئسٹر غریبوں کے کھانے سے امیروں کا کھانا کیسے بنے

ڈاکٹر سعید عابد آفریدی کے مطابق ایسے بہت سے کاشتکاروں کے کیسسز آئے ہیں جن میں ان کے پھیپڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ان کو ہر وقت آکسیجن رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ صوابی کے علاقے جہانگیرہ سے سانس، جلد، دمہ اور گردوں کی بہت زیادہ شکایات موصول ہو رہی تھیں جس کے بعد ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم نے وجوہات جاننے کے لیے دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ تمباکو کی فصل سے جڑے لوگوں میں یہ مسائل زیادہ ہیں۔

بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر

بونیر کے کاشتکار وکیل زادہ نے بتایا کہ کٹائی انتہائی مشکل اور سخت کام ہے۔ اگر باہر درجہ حرارت 37 ڈگری سینٹی گریڈ ہو تو تمباکو کے کھیت میں نمی، حبس اور کیمیکلز کے اثرات کی وجہ سے 47 ڈگری سینٹی گریڈ کے برابر محسوس ہوتا ہے اور بچے بھی، پتوں کو گھروں تک لے جانے، وہاں ڈنڈوں پر ایک خاص طریقے سے باندھنے اور بھٹیوں میں رکھنے تک گھر کے بڑوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

ڈائریکٹر پلانٹ پروٹیکشن محمد نوید کے مطابق ان پتوں پر کیمیکلز کی باقیات کافی وقت تک رہتی ہیں جو ان پتوں کے ساتھ کام کرتے وقت ان کے جسم میں داخل ہو جاتی ہیں۔

ڈیپارٹمنٹ آف ویڈ اینڈ باٹنی یونیورسٹی آف ایگریکلچر پشاور کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بختیار گل کے مطابق بچوں اور خواتین پر ان کیمیکلز کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔

’غربت کی وجہ سے کاشتکار مزدور کی اجرت ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور اکیلے فصل کو سنبھال نہیں سکتا اس لیے گھر میں مرد، عورتیں اور بچے سب کام کرتے ہیں۔ یوں وہ پیسے تو بچا لیتا ہے لیکن دوسری طرف اپنے اور گھر کے دوسرے افراد کی صحت کو داؤ پر بھی لگا دیتا ہے۔‘

ڈاکٹر بختیار گل نے بتایا کہ ’عورتیں گھروں میں بچ جانے والے تمباکو کے تنے گھروں میں جلاتی ہیں جس سے اٹھنے والا دھواں سانس کے ذریعے اندر جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک نشہ سا بن جاتا ہے۔ اکثر حاملہ خواتین جب کپڑے دھوتی ہیں تو ان پر لگی کیڑے مار ادویات کا اثر نہ صرف ان کی بلکہ ان کے پیٹ میں پلنے والے بچے کی صحت پر بھی ہوتا ہے۔‘

’لکڑی جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہوتی ہیں‘

تمباکو کے پتوں کو رنگ اور پیکنگ کے لیے بھٹیوں میں خشک کیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان اضلاع میں تقریباً 1500 سے زائد بھٹیاں ہیں جو زیادہ تر کاشتکاروں نے گھروں میں بنا رکھی ہیں جو ایک کمرے پر مشتمل ہوتی ہیں۔

ان کمروں میں اوپری حصے میں پتوں کو انتہائی احتیاط کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور درجہ حرارت کو بڑھانے کے لیے نیچے لوہے کی پائپ گزارے جاتے ہیں۔

ان پتوں کو 85 سے 92 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت مہیا کیا جاتا ہے جس کے لیے لکڑی جلائی جاتی ہے۔

صوابی میں یار حسین تحصیل کے انجینئیر مقصود علی کے مطابق ایک بھٹی چھ سے سات دن کا وقت لیتی ہے اور اس دوران تقریباً 50 سے 60 من تک لکڑی جلائی جاتی ہے۔ یہ سیزن تین مہینے تک چلتا ہے اور تین سے چار ایکڑ کی کاشت پر ایک بھٹی ہوتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر حزب اللہ کے مطابق لکڑی جلنے کی صورت میں پانچ قسم کی گیسز پیدا ہوتی ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ شامل ہیں۔

’کیمکلز کا استعمال ختم نہیں تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے‘

پاکستان ٹوبیکو بورڈ (پی ٹی بی) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ادریس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پسٹیسائیڈز کے سائیڈ افیکٹس سے بچنے کے لیے کاشتکاروں کو باقاعدگی سے تربیت دی جاتی ہے اور ٹوبیکو کمپنیوں کی طرف سے ان کو حفاظتی کٹس بھی دی جاتی ہیں لیکن کاشتکار ان کا استعمال نہیں کرتے۔

غیر معیاری اور زائدالمیعاد ادویات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی بی کی طرف سے امپورٹڈ اور معیاری ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور کاشتکاروں کو باقاعدہ کمپنیز اور رجسٹرڈ ڈیلرز کے نام دیے جاتے ہیں۔

ایگریکلچر یونیورسٹی کے انچارج ڈاکٹر ہارون خان کے مطابق تمباکو کی فصل میں کیڑوں کو کنٹرول کرنے کے قدرتی طریقے بھی موجود ہیں، اگر ان کو اپنایا گیا تو ہم ان کیمکلز کا استعمال اگر ختم نہیں تو کم ضرور کر سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں جب ادارہ برائے تحفظ ماحولیات سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے یہ کہہ کر معذوری کا اظہار کیا کہ اس حوالے سے انھوں نے تاحال کوئی کام کیا ہے نا ہی کسی قسم کی تحقیق ان کی نظر سے گزری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments