کارل پوپر کا عدم جبریت کا نظریہ


مذہبی، فلسفیانہ اور سائنسی فکر کا غالب حصہ اس کائنات میں جبر کی کارفرمائی کو تسلیم کرتا ہے۔ کارل پوپر نے اس مسئلہ پر بھی اپنی منفرد رائے کو بڑے قوی دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس نے جبریت کی تین اقسام گنوائی ہیں۔ ( 1 ) الٰہیاتی جبریت ( 2 ) ما بعد الطبیعیاتی جبریت ( 3 ) سائنسی جبریت۔

الٰہیاتی جبریت سے مراد یہ ہے کہ اس کائنات میں پیش آنے والے تمام واقعات وقوع پذیر ہونے سے قبل خدا کے علم میں ہوتے ہیں ؛ محض کائناتی حوادث ہی نہیں بلکہ تمام انسانی اعمال بھی کسی خاص وقت پر رونما ہونے سے قبل خدا کے علم میں ہوتے ہیں۔ خدا کا علم ماضی، حال اور مستقبل کو محیط ہے۔ خدا کا علم چونکہ کسی قسم کی غلطی اور احتمال سے بھی پاک ہوتا ہے، اس لیے جو کچھ خدا کے علم میں ہوتا ہے وہ بعینہ وقوع پذیر بھی ہو گا؛ بصورت دیگر خدا کا علم ناقص ٹھہرے گا۔

الٰہیاتی جبریت پر پوپر کا اعتراض یہ ہے کہ اس طرح ماضی اور مستقبل دونوں حقیقی بن جاتے ہیں۔ ماضی سے مراد وہ واقعات ہیں جو رونما ہو چکے ہوتے ہیں۔ مستقبل وہ ہے جسے ابھی وقوع پذیر ہونا ہے۔ ماضی اس بناء پر حقیقی ہے کہ وہ بیت چکا ہوتا ہے۔ مستقبل غیر حقیقی ہے کیونکہ اسے ابھی وجود میں آنا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ تسلیم کریں گے کہ مستقبل بھی اسی طرح خدا کے علم میں ہوتا ہے جس طرح ماضی تو اس صورت میں مستقبل غیر حقیقی نہیں بلکہ ماضی کی مانند ایک اٹل حقیقت ہو گا۔

پوپر نے اس کی مثال سینما کی فلم سے دی ہے۔ فلم سکرین پر دکھائی جا رہی ہے۔ جو مناظر گزر چکے ہیں وہ ماضی ہے، سکرین پر نظر آنے والا منظر حال ہے اور جو مناظر ابھی سکرین پر آنے ہیں وہ مستقبل ہے۔ لیکن یہ مستقبل ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ بھی فلم کے فیتے پر اس طرح موجود ہے جس طرح وہ مناظر جو گزر چکے ہیں۔ اس صورت میں مستقبل بھی ماضی کی مانند اٹل اور ناقابل تغیر بن جاتا ہے۔ پوپر کا کہنا ہے کہ اس طرح خدا کے علم اور قدرت میں تناقض واقع ہو جاتا ہے۔

جب فلم چل رہی ہوتی ہے تو فلم کا بنانے والا بھی اس کے انجام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ بعینہ اگر مستقبل بھی خدا کے علم میں ماضی ہی کی مانند حقیقی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب خدا بھی مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات میں تغیر و تبدیل نہیں کر سکتا۔ وہ لازماً اسی طرح اور اسی ترتیب سے رونما ہوں گے جس طرح اس کے علم میں مقدر ہیں۔

ما بعد الطبیعیاتی جبریت کا نظریہ کائنات کی حقیقت و ماہیت کو بیان کرتا ہے۔ اس نظریہ کو اولاً یونانی فلسفی ڈیموکرائٹس نے بیان کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ تمام واقعات جو ظہور پذیر ہو چکے ہیں، ہو رہے ہیں یا آئندہ ہوں گے، وہ ازل سے ہی لازمی طور پر مقدر ہو چکے ہیں۔ یہ نظریہ ماضی اور مستقبل کو مساوی بنا دیتا ہے ؛ دونوں یکساں طور پر متعین ہیں۔

سائنسی جبریت کا نظریہ مابعد الطبیعیاتی نظریے پر دعوئے علم کا اضافہ کر دیتا ہے۔ اس کی رو سے متعین اور مقدر مستقبل کا پیشگی علم حاصل کرنے پر کوئی اصولی قدغن عائد نہیں ہوتی۔ ہم موجود شواہد اور قوانین فطرت کی مدد سے آئندہ واقعات کا پیشگی علم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہماری پیش گوئیوں میں عدم تعین کا عنصر عملاً شامل رہتا ہے لیکن سائنسی جبریت کا دعوی ہے کہ جیسے جیسے ابتدائی شرائط کا ہمارا علم ترقی کرتا جائے گا ہماری پیش گوئیاں بھی زیادہ سے زیادہ تعین اور درستگی کی حامل ہوتی چلی جائیں گی۔

مندرجہ بالا جبری نظریات کے متضاد اور مخالف مابعد الطبیعیاتی عدم جبریت اور سائنسی عدم جبریت کے نظریات ہیں۔ ما بعد الطبیعیاتی عدم جبریت کا دعوی ہے کہ کم از کم ایک واقعہ ایسا ہے کہ اس کے ظہور سے قبل کسی لمحہ پر اس کے بارے میں یہ پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کہ وہ فلاں وقت پر رونما ہو گا۔ یعنی اس کے ظہور سے قبل کوئی ایسی علت موجود نہیں ہوتی جو اس کے ظہور کو لازم بناتی ہو۔ سائنسی عدم جبریت کا دعوی ہے کہ کم از کم ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کے ظہور سے قبل اس کے بارے میں سائنسی پیش گوئی ممکن نہیں کہ وہ فلاں وقت پر رونما ہو گا۔ کسی غیر جبری نظریے کے لئے لازم ہے کہ وہ یہ بتائے کہ کس قسم کے واقعات ہیں جو غیر متعین ہیں اور ان کے متعلق پیش گوئی کرنا کیوں ممکن نہیں۔

سائنسی جبریت کا نظریہ مابعد الطبیعیاتی جبریت سے زیادہ جامع ہے اور اس کے برعکس سائنسی عدم جبریت کا نظریہ مابعد الطبیعیاتی عدم جبریت سے کم جامع ہے۔ (جبریت اور عدم جبریت کو سائنسی قرار دینے کا یہ مطلب نہیں کہ ان نظریات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے بلکہ سائنسی علم کے امکانات کو بیان کرنا مراد ہے ) ۔ سائنسی عدم جبریت کا کہنا ہے کہ مستقبل سے متعلق ہمارے بہترین علم میں بھی کچھ خامیاں ہو سکتی ہیں یعنی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق ہمارا علم کبھی اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ اس میں کسی غلطی کا کوئی امکان نہ رہے۔ ما بعد الطبیعیاتی عدم جبریت کا دعویٰ سائنسی عدم جبریت سے بڑھ کر ہے۔ اس کے مطابق مستقبل کے بارے میں ہماری پیش گوئیوں کے غیر حتمی ہونے کا محض یہ سبب نہیں کہ ہمارا علم خام اور ہمہ گیری سے خالی ہے بلکہ مستقبل میں ایسے کھلے امکانات پائے جاتے ہیں جو ابھی غیر متعین ہیں۔

پوپر مابعد الطبیعیاتی عدم جبریت کا علم بردار ہے اور اس کی تنقید کا نشانہ زیادہ تر سائنسی جبریت کا نظریہ ہے۔ تاہم اس کے دلائل کا یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ مابعد الطبیعیاتی جبریت کا تصور غیر معقول اور ناقابل قبول ہے۔

عقل عامہ کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ہم مستقبل کی تشکیل اپنے منصوبوں کے مطابق کر سکتے ہیں جب کہ ماضی ناقابل تغیر ہے۔ یہ تصور بہت عام فہم ہے کہ ماضی چونکہ گزر چکا ہے اس لیے ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن مستقبل چونکہ ابھی وقوع پذیر ہونا ہے اس لیے ہم اس پر کسی حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی مفروضہ اس تیقن کے بر خلاف پیش کیا جائے گا تو اس مفروضے کے اثبات کی ذمہ داری اس کو پیش کرنے والے پر عائد ہو گی۔ اور اگر اس کے حق میں دیے جانے والے بہترین دلائل کو غلط ثابت کر دیا جائے تو یہ مفروضے کی تردید کے لئے کافی ہو گا۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیوٹن کی فزکس ماضی اور مستقبل کے ان عام فہم تصورات یعنی ماضی کے متعین اور مستقبل کے غیر متعین ہونے کے خلاف سب سے زیادہ قوی شہادت فراہم کرتی ہے۔ حالانکہ نیوٹن نے خود بھی عدم تعین کا ایک تصور پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق جب نظام شمسی میں معمولی بے قاعدگیاں جمع ہو جاتی ہیں تب خدا مداخلت کر کے نظم اور قاعدہ کو بحال کر دیتا ہے۔ لیکن نیوٹن کی فزکس یہ پیش گوئی کرنے سے قاصر تھی کہ یہ خدائی مداخلت کب ہو گی اور اس کی کیا صورت ہو گی۔

تاہم لاپلاس نے اس خامی کو دور کر دیا۔ اس کے نزدیک اگر کوئی ایسا ”دیو“ فرض کر لیا جائے جو آن واحد میں تمام اجسام کی پوزیشن، ان پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کا ادراک کرنے اور ان معطیات کا تجزیہ کرنے پر قادر ہو تو کوئی بات غیر حتمی نہیں رہے گی اور مستقبل ماضی ہی کی مانند متعین اور اس ذہن کے سامنے لمحہ حاضر ہی کی طرح موجود ہو گا۔

پوپر نے یہ ثابت کیا کہ کلاسیکی طبیعیات بھی سائنسی جبریت کو ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ اگر لا پلاس کے اس مفروضہ ”دیو“ کو مادی شکل و صورت دے دی جائے یعنی اسے ایک میکانکی پیش گو (سپر کمپیوٹر) فرض کیا جائے تو ایسا پیش گو خود اپنے مستقبل کی پیش گوئی پر قادر نہیں ہو گا۔ اس کے لئے ہمیں ایک دوسرا پیش گو فرض کرنا پڑے گا، پھر دوسرے پیش گو کے لیے تیسرا پیش گو۔ یوں یہ سلسلہ بلا انتہا دراز ہوتا جائے گا۔

اس طرح کوانٹم فزکس کے اصول عدم تعین کو استعمال کیے بغیر بھی پوپر نے یہ ثابت کیا کہ مابعد الطبیعیاتی جبریت کی تائید سائنسی جبریت سے کرنا ممکن نہیں۔ تاہم مابعد الطبیعیاتی جبریت پسند اس صورتحال سے بچنے کا رستہ نکال سکتا ہے۔ وہ ہائزن برگ کے اصول عدم تعین کی یہ تعبیر کر سکتا ہے : اس عدم تعین کا تعلق خارجی حقیقت سے نہیں بلکہ ہمارے علم سے ہے۔ اگر ہم کسی سالمہ کے مقام اور رفتار کی بیک وقت پیمائش نہیں کر سکتے اور یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کس سمت میں حرکت کرے گا تو اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ طبیعیاتی سطح پر غیر متعین ہے بلکہ ہم اپنے علم کے خام ہونے کی بنا پر اس کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ گویا کائنات کے اندر کسی قسم کا احتمال نہیں پایا جاتا بلکہ احتمال کا تعلق ہمارے علم کے ساتھ ہے۔ کائنات کے اندر کسی قسم کے کھلے امکانات نہیں پائے جاتے۔

پوپر کو اس تعبیر پر یہ اعتراض ہے کہ اس طرح سائنسی علم معروضیت کھو بیٹھے گا۔ سائنسی علم کائنات کی تعبیر کرنے کی سعی کرتا ہے جیسی کہ وہ ہے۔ خارجی کائنات سے علم کا یہ رشتہ ہی سائنسی علم کو وقیع بناتا ہے۔ وہ سائنسی نظریات جو خارجی کائنات کی حقیقت سے متصادم ہوتے ہیں رد کر دیے جاتے ہیں۔

عدم جبریت کے حق میں قوی ترین دلیل یہ ہے کہ سائنس خواہ کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر لے وہ ایک کام کبھی نہیں کر سکتی اور وہ ہے اپنے مستقبل کی پیش گوئی۔ سائنسی منہاج کی مدد سے یہ پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کہ نظری سائنس آئندہ کس راستہ پر چلے گی۔ فرض کیجئے کوئی یہ کہتا ہے کہ ہائزن برگ کا اصول عدم تعین آئندہ بیس سال میں ایک ایسے نظریے سے تبدیل ہو جائے گا جو کلاسیکی طبیعیات کے نظریات سے کم غیر متعین نہیں ہو گا۔ جب تک یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس نظریے کے مشمولات کیا ہوں گے اور کون اس نظریے کو پیش کرے گا، یہ نظریہ کس وقت پیش کیا جائے گا، اس نظریے کا جبریت و عدم جبریت کی بحث پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔

مستقبل میں پیش کی جانے والی اس تھیوری کو ہم ’ما‘ قرار دے سکتے ہیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ ’ما‘ کی بیان کردہ کائنات بڑی حد تک جبر کا شکار ہو گی اور ’ما‘ کائنات کا خاصہ جامع بیان ہو گا۔ لیکن ایک بات ایسی ہے جس کا ’ما‘ خود بھی ادراک نہیں کر سکے گا اور وہ یہ کہ ’ما‘ کس وقت پیش کیا جائے گا۔ کیا اس حقیقت کو سائنسی منہاج کی مدد سے بیان کیا جا سکتا ہے؟ کیا اصولی طور پر ایسا ممکن ہے کہ ہم سائنسی طور پر ’ما‘ کے مشمولات اور اس کی ایجاد کے وقت کی پیش گوئی کر سکیں؟

اگر ہم اپنے تمام موجودہ سائنسی علم کو ’لا‘ قرار دیں تو یہ بات عیاں ہے کہ ’لا‘ اور ’ما‘ باہم متبائن ہوں گے۔ اب اگر ’ما‘ اور ’لا‘ متبائن ہیں تو ’ما‘ کا ’لا‘ سے استخراج ممکن نہیں ہو گا۔ یا ’لا‘ خود داخلی تناقض کا شکار ہو گا اور اس صورت میں ’ما‘ اور ’ما‘ کی نفی دونوں کا استخراج ممکن ہو گا۔ لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ علم کی بناء پر آئندہ پیش کیے جانے والے کسی نظریے کے مشمولات کا تعین نہیں کر سکتے۔

اور اگر بفرض محال ایسا ہو بھی جائے تو وہ نظریہ مستقبل کا نظریہ نہیں رہے گا بلکہ اب ہمارے علم میں ہو گا۔ یہ کہنا کتنا عجیب ہو گا کہ یہ نظریہ جس کے یہ اور یہ مشمولات ہیں، فلاں شخص اس کا موجد ہے، اور وہ بیس سال بعد اس نظریے کو پیش کرے گا۔ یعنی ہم یہ کہہ رہے ہوں گے کہ نظریہ ہمارے علم میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ یہ بیان سراسر متناقض ہو گا۔

طبیعیات کے علاوہ حیاتیات اور بالخصوص انسانی اعمال و افعال کی دنیا ایسی ہے جس میں کھلے امکانات پائے جاتے ہیں اور ان کی پیش گوئی ممکن نہیں۔ حیاتیات کے میدان میں مقبول ترین نظریہ ارتقا کا ہے۔ نظریۂ ارتقا یہ تو بیان کرتا ہے کہ مختلف انواع کا ارتقا کس طرح ہوا ہے لیکن وہ یہ بیان کرنے سے قاصر ہے کہ ارتقا کی آئندہ سمت اور اس کی منزل کیا ہو گی۔ جینیات کی مدد سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ جینیاتی کوڈ کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی انسان کی آئندہ زندگی کیسی ہو گی۔

یہ بالکل غلط ہے۔ جینیاتی کوڈ کی مدد سے ہم صرف یہ جان سکتے ہیں کہ کسی انسان کے حیاتیاتی اور طبعی خواص کیا ہوں گے۔ یعنی اس کا قد کتنا ہو گا، اس کے بالوں اور آنکھوں کا رنگ کیا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ بھی جان لیں کہ وہ شاعر ہو گا یا افسانہ نگار۔ لیکن ہم یہ نہیں جان سکیں گے کہ وہ کون سی نظمیں اور غزلیں یا کس قسم کے افسانے لکھے گا۔

اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہم ما بعد الطبیعیاتی جبریت کے نظریے کو منطقی طور پر غلط ثابت نہ بھی کر سکیں تب بھی اس کے خلاف اتنے قوی دلائل فراہم کر سکتے ہیں جو اس کو ناقابل قبول بنانے کے لئے کافی ہوں۔ مابعد الطبیعیاتی نظریات کا حتمی رد تو ممکن نہیں ہوتا لیکن بحث مباحثہ کے بعد ہم ان کی غیر معقولیت کو واضح کر سکتے ہیں۔ پوپر کے پیش کردہ دلائل یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ مابعد الطبیعیاتی جبریت اور سائنسی جبریت کے نظریات تنقید و تجزیہ کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے۔

(کارل پوپر کے تراجم پر مبنی کتاب ”فلسفہ، سائنس اور تہذیب“ کے تعارفی مضمون سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments