آخری آپشن نواز شریف


آج کل کچھ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ یہ بات زیادہ تر وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو بس اپنے کچن کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ کیونکہ ان کے لئے اپنے بچوں کی سکول فیس اور بزرگ والدین کی ادویات تو دور کی بات روٹی پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ 2017 میں اچھا بھلا پاکستان چل رہا تھا۔ سٹاک مارکیٹ 52 ہزار پوائنٹس پر دوڑ رہی تھی۔ ڈالر 103 روپے کا تھا۔ پیٹرول 70 روپے لیٹر تھا۔

گھی 150 روپے کلو تھا۔ آٹا 35 روپے کلو، چینی 50 روپے کلو مل رہی تھی۔ پھر اچانک سے ثاقب نثار اور جاوید اقبال جیسے گھناؤنے کرداروں کی سکرین پر انٹری ہوتی ہے۔ اچھے بھلے غریب کے چلتے کچن کو بریک لگادی جاتی ہیں۔ یہ دونوں نگینے اپنے اپنے شعبوں میں انصاف اور احتساب کے سسٹم کی تباہی پھیر نے آئے تھے اور سب کچھ ایسے روند کر رکھ دیا جیسے ہلاکو خان اور چنگیز خان کے پڑپوتے ہوتے ہیں جن کا خون ان کی رگوں میں دوڑ تھا جو ان کو مجبور کر رہا تھا کہ اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کردو۔

بدقسمتی دیکھیں یہ دونوں اس گھناؤنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گئے۔ یہ دونوں ایک ایسے کھلاڑی کے لئے گراؤنڈ سیٹ کر کے جا رہے تھے جس کا اپنا کچن چلانے کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ جس کو ہنستا بستا اور پھیلتا پھولتا ملک لے کر دیا لیکن اس نے ملک کی اس انداز میں چولیں ہلائی کی ابھی تک وہ واپس اپنی جگہ پر ٹک نہیں رہی۔ آج سٹاک مارکیٹ 41 ہزار سے کراس نہیں کر رہی۔ ڈالر 250 سے واپس آ رہا ہے۔ قرضے پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ لیے۔

باقی چیزوں کی بات چھوڑیں آج غریب 200 روپے میں سبزی نہیں خرید پا رہا ہے۔ بھینسوں کی فروخت سے شروع ہونے والی گیم نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل تک پہنچ گئی۔ بات یہاں تک ہی نہیں رکی۔ سعودی ولی عہد کی تحفے میں دی گھڑی تک بیچ ڈالی۔ نواز شریف کو صرف اس لیے ہٹا یا کہ اس نے مشرف پر کیس کیوں بنایا۔ جبکہ عاصم باجوہ جس پر بطور جنرل الزام لگا کہ اس نے امریکہ میں پاپا جونز پیزے کی 90 فرنچائز بنالی ہیں پھر اس کو سی پیک اتھارٹی کا سربراہ بھی بنا دیا اور الٹا قومی اسمبلی سے سی پیک اتھارٹی کا بل پاس کرا کے اس کو ہمیشہ کے لئے احتساب سے استثنا بھی دلا دیا۔

گیم یہاں ہی نہیں رکی۔ عمران خان کے قریبی جتنے بھی لوگ تھے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے ملک کو لوٹا ان کو کھلی چھٹی دے دی گئی۔ ان کو کسی عدالت، ایف آئی اے یا نیب نے سوال تک نہیں پوچھا کہ آپ لوگوں تو کرپشن ختم کرنے، چوروں کا احتساب کرنے اور ملک میں تبدیلی لانے آئے تھے لیکن اب خود کرپشن بھی کر رہے ہیں، چور بھی بن گئے ہیں اور ملک کی ترقی کو ریورس گیئر بھی لگادیا ہے۔ جب تک عمران خان وزیراعظم رہا عدالت، نیب اور ایف آئی اے نے موٹا والے کمبل اپنے اوپر اوڑھے رکھا کہی ان کو ہلکی سی بھی کرپشن، چور ڈاکو کی آواز بھی نہ آئے۔

ان تینوں اداروں کو پیٹرول، چینی، گندم، آٹا، ادویات، ایل این جی، راولپنڈی رنگ روڈ جیسے سکینڈلز کہاں نظر آنے تھے۔ ان کو تو سی پیک، ڈیویلپمنٹ ورک، ائر پورٹ بنتے، پی آئی اے، ریلوے، غریب کا کچن چلتا، ترقی کی شرح 5.8 اور طلبہ کو مفت لیب ٹاپ ملتے نظر آرہے تھے۔ ان کا مشن ان سب پروگرامز کا کچومر نکالنا تھا وہ نکا کر باری باری منظر سے غائب ہو گئے۔ آج غریب رہ گیا اور ان غریب دشمنوں کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔ نواز شریف کا جرم بس یہ ہے کہ وہ جب بھی آتا ہے دو تہائی اکثریت لے کر آتا ہے اور اس کے بدلے پاکستان کو چار چاند لگا دیتا ہے پھر جیسے ہی وہ مخالفین کو کھٹکنا شروع ہوتا ہے وہ نواز شریف کو تارے دیکھا دیے جاتے ہیں۔

کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ تم پاکستان کو بھی اپنے گھر کی سنوارنے اور سجانے لگ گئے ہو۔ لیکن اب کی بار نواز شریف ان سب کو الٹا پڑ گیا ہے۔ اس نے ان کو تارے دیکھا دیے ہیں۔ نواز شریف کے مدمقابل جو بھی شو پیس، مہرہ یا متبادل لانچ کیا جاتا ہے وہ الٹا ان کے گلے پڑ جاتا ہے اور ملک کو ایسا ریورس گیئر لگاتا ہے کہ سیدھی بریک ستر کی دہائی پر جا کر لگتی ہے۔ حالیہ عمران تجربہ بھی ان کے ایسا گلے پڑ رہا ہے کہ اس سے جان چھڑانے کے سوا چارہ کوئی نہیں بچا۔

اب ان کے پاس ایک ہی آپشن بچی ہے کہ نواز شریف کو واپس لائیں اس سے پچھلے گناہوں کی معافی مانگیں۔ نواز شریف تیسری بار دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کریں اور ملک نئے سرے سے سنوارنے اور سجانے کی کوشش کریں۔ اگلے دس سال تک ملک نواز شریف کے حوالے کیا جائے کیونکہ عمران خان کے لئے بھی یہی پلان بنایا تھا وہ پلان بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ نواز شریف اپنے پلان خود بنانے کا ماہر ہے۔ کیونکہ وہ جب آتا ہے تو سسٹم خود بخود چل پڑتا ہے جب آؤٹ ہوتا ہے تو سسٹم کو بریک لگ جاتی ہے۔ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار بھی اس کے پچھلے چلے آتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کو اب جوشیلے اور پھرتیلے گھوڑے کی رفتار سے دوڑانے کی ضرورت ہے یہ قابلیت نواز شریف کے علاوہ کسی سیاستدان کے پاس نہیں ہے۔ نواز شریف آخری آپشن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments