میکاؤلی اور مذہبی ٹچ


عصر حاضر کی سیاست کا امام، اطالیہ کا مشہور مفکر، میکاؤلی قرار دیا جاتا ہے، اس کے فلسفہ ٔ سیاست کا ملخص یہ ہے کہ اصل اہمیت مقصد کو حاصل ہے، ذرائع کو نہیں، حصول مقصد کے لیے جو ذرائع بھی اختیار کیے جائیں سب جائز ہیں۔ اس اصول کے پیش نظر، جھوٹ، فریب، دغا بازی، دھوکا دہی، معاہدہ شکنی، غرض کہ ہر حربہ، جو حصول مقصد کے لیے مفید ہو، نہ صرف جائز بلکہ ضروری قرار پایا جاتا ہے۔ اس فلسفہ ٔ سیاست نے دنیا کو جس طرح درندوں کا بھٹ بنا دیا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اور تو اور، خوردہ قومیں جو اس سیاست کی امام سمجھی جاتی ہیں، اس کی بربریت کے ہاتھوں اس درجہ نالاں ہیں کہ ان کی چیخ و پکار کی آواز ہر ایوان مملکت سے سنائی دیتی ہے۔

اس سیاست کی تباہ کاریاں ویسے ہی کچھ کم نہیں ہوتیں، لیکن جب یہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مذہبی ٹچ کے ہاتھوں کا کھلونا بنتی ہیں تو اس کی تباہ کاریاں اور وحشت سامانیاں اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہیں۔ ان کے ہاں یہ سیاست خود ساختہ مذہبی تقدس کی نقاب اوٹ کر، ہاتھوں میں مالا جپتے اور شرک کے معنی بیان کرتے ہوئے، خود ساختہ شریعت کی عظمت و اقتدار کے نعرے بلند کرتی آتی ہے۔ ہماری بدقسمتی سے یہ سیاست ( بلا نقاب اور نقاب پوش۔

دونوں شکلوں میں ) پاکستان میں فروغ پا رہی ہے۔ بلا نقاب سیاسی راہنماؤں کے ایوانوں میں اور نقاب پوش خود ساختہ مذاہب کی تشریح کرتے ہاتھوں میں تسبیح پکڑے، فروعی مقاصد کے لیے وعظ و تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ جو سیاست خود ساختہ مذہبی نقاب کی آڑ میں آگے بڑھتی ہے اس کا سب سے بڑا الم انگیز اور جگر سوز اقدام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی فریب کارانہ روش کی تائید میں، مقدس سے مقدس اور عظیم سے عظیم ہستیوں کو اپنے حق میں بطور گواہ پیش کرنے سے بھی نہیں شرماتی۔

جب ملک کے ایک معروف زبان پلٹ شخصیت کی اس روش پر اعتراض کیا جاتا ہے تو ان سمیت حواریوں کی بڑی تعداد جھٹ سے فرما دیتے ہیں کہ یہ کون سا انوکھا کام کیا ہے ( معاذ اللہ۔ معاذ اللہ پناہ بخدا) ۔ ان میں مخالفین یا موصوف کے بعض معتقدین اعتراضات سے قائل نظر آتے ہیں تو انہیں ڈانٹ کر کہا جاتا ہے کہ تمہارا ایمان بڑا کمزور ہے جو منزل اول ہی میں گھبرا اٹھے ہو، قبر میں سوال ہو گا، شرک کر رہے ہو ( نعوذ باللہ )، ان کا ایمان ہے کہ یہ تو وہ وادی ہے، جس میں اصولوں میں لچک پیدا کرنا تو ایک طرف، جھوٹ بولنا بھی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوجاتا ہے۔

آپ غور فرمایے کہ موصوف کی پیش کردہ خود ساختہ مذہبی تاویلیں اور میکاؤلی کی سیاست میں کچھ بھی فرق ہے؟ فرق ہے تو اتنا کہ میکاؤلی سیاست پر عامل ( سیاسی لیڈر) اپنے جھوٹ، فریب دغا بازی کو کبھی فخریہ بیان نہیں کرے گا، اگر ان الزامات کو اس کی طرف سے منسوب کیا جائے گا تو الٹا اس کی مذمت کرنے والے پر حواریوں سمیت پل پڑیں گے اور نہ صرف انکار کردے گا بلکہ یہ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا کہ وہ اس قسم کی حرکات سے بہت بلند ہے۔ یعنی وہ جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، قول و فعل میں تضاد کو عیوب شمار اور ان کے ارتکاب پر کبھی فخر نہیں کرے گا۔ وہ اسے امر بالمعروف کہہ کر، خود ساختہ نیکی اور ثواب کا کام تصور کرے گا اور دوسرے کو دھوکا دے کر خوش ہو گا کہ اس طرح وہ سرخرو ہو جائے گا۔

ظاہر ہے کہ یہ میکاؤلی سیاست، الیکشن کی پیش بندی ہے، جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ بقول انہوں نے صالحین کی جماعت بنانے اور مورثی سیاست کو دفن کرنے کا بیانیہ دیا تھا تو اب کیوں ان کی صفوں میں بکنے والے سب سے بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں اور مورثی سیاست میں خود ان کے دائیں بائیں متعدد خاندان کے خانوادے شیر و شکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو اس کا جواب پہلے سے مرتب کر لیا گیا کہ عملی سیاست میں آ کر نظری اصولوں میں تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

فرشتے کہاں سے لائیں، یعنی جو کچھ نظری طور پر حرام ہو، وہ عملی طور پر حلال و طیب بن جاتا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ الیکشن کرانے کے لیے اور اقتدار کی ہوس میں ان حضرات نے بھی جھوٹ، فریب، دغا بازی اور جعل سازی سے کام لینا ہے، اس کے لیے حسب عادت یہ گراؤنڈ تیار کرلیتے ہیں اور اپنے بڑے مقصد کے حصول کے لیے، چھوٹی چھوٹی اخلاقی اقدار کو پامال کرنا تو بہت معمولی سی بات ہے۔ بلکہ ان کی نزدیک الیکشن میں کسی بھی طرح کامیابی حاصل کرنے کے لیے بلند ترین مقصد ہے، اس لیے اس میں کامیابی کے لیے، صداقت، راست بازی، دیانت، امانت جیسی معمولی اقدار کا نقصان کچھ معنی نہیں رکھتا۔

یہ تو رہا اس جماعت کا مقصد جو بڑی بڑی تبدیلیوں کے دعوؤں کے ساتھ مذہبی ٹچ ساتھ لائی، لیکن آپ سوچئے کہ جھوٹ اور فریب کا لائسنس رکھنے والی یہ جماعت قوم کو تباہیوں اور بربادیوں کے کس جہنم کی طرف لیے جا رہی ہے۔ ملک میں اخلاقی اقدار کی پابندی پہلے ہی کم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود، ابھی معاشرہ میں حیا ( یا جھجک) باقی ہے کہ جھوٹا اور فریب کار اپنے اس کردار کو معاشرہ کے سامنے فخریہ پیش نہیں کرتا۔ لیکن ان سے کہہ دیا جائے کہ ’اچھے‘ مقصد کے حصول کے لیے جھوٹ، فریب، دغا بازی، سب جائز بلکہ واجب ہو جاتے ہیں تو سوچئے کہ نفسیاتی طور پر اس کا قوم پر کیا اثر پڑے گا۔

یہ جماعت دو دہائیوں سے مسلسل سیاسی لیڈروں کو کوستی چلی آ رہی ہے کہ فلاں ایسا تو فلاں ویسا، یہ ابھی تک یہ چورن بیچتے رہے کہ ’فلاں شخص دعووں کا پاس نہیں رکھتا تو فلاں جماعت والے معاہدوں کا احترام نہیں کرتے۔ یہ تو اپنے مخالفین کو الگ کرنے میں ہر حربہ استعمال کرلیتے ہیں، انہوں نے حکومت کی سندیں اپنے گروہ کے لیے مخصوص کر رکھی ہیں، یہ تو سب اقربا نواز اور اعزہ پرور ہیں‘ ۔ یہ اور اس قسم کی الزامات کا تانتا ہے جو نام نہاد صادق و امین کی طرف سے بندھا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سوچئے کہ اگر کل کو ایک بار پھر زمام اقتدار ان کے ہاتھ میں آ گئی تو یہ صالحین میکاؤلی سیاست اور مذہبی ٹچ کی آڑ میں کیا کچھ نہیں کر گزریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments