شہباز گل بمقابلہ سلیم صافی


پاکستانی سیاست کے روایتی انداز عوام کے سیاسی شعور اور طریق جد و جہد کی شفاف عکاسی کرتے ہیں۔ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے رہنما کی گرفتاری نیوز میڈیا کے لیے کسی فیچر فلم کے ایکشن سین سے کم ثابت نہیں ہو رہی۔ بنی گالا سے ان کا اچانک غائب ہو جانا، اس واقعے کا الزام پولیس پر عائد ہو جانا اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا اسے اغوا قرار دے دینا یہ سب باتیں ان تمام روایتی واقعات کی یاد دہانی کراتی ہیں جن کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا جاتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، انٹیلی جینس اور حساس ادارے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے واقعات کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ ریاستی اداروں کے نام پر سامراجی طاقتوں اور مفاد پرست گروہوں کی بد معاشی اور قانون شکنی ہوتی ہے۔ جسے بعد میں یا سیاسی یا سرکاری سرپرستی دے کر منطقی انجام دیا جاتا ہے۔ اگر یاد ہو تو میجر حارث کا واقعہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ چند نا معلوم افراد نے سڑک کے بیچ و بیچ دادا گیری کے جوہر دکھائے، غیر ناطق میڈیا اور بے لگام سوشل میڈیا نے اس کی تشہیری مہم میں اپنا کردار مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ نتیجہ یہ تھا کہ انتظامی نظام، ریاستی اداروں کی جانب سے عوام کے جان مال کو تحفظ فراہم کرنے کے عہد کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔

اس واقعے میں سیاسی اثر و رسوخ اور طاقت ور میڈیا گروپس کی نجی سطح کی دلچسپی کچھ زیادہ معلوم ہو رہی ہے۔ کیوں کہ شہباز گل کا بطور سیاسی رہنما انداز جارح ہے اور وہ تنقید کرتے وقت یا خطابت کے دوران گفتگو کے معیار کو برقرار نہیں رکھ پاتے اس لیے ان کا اپنے سخت الفاظ کی زد میں آجانا قابل فہم ہے۔ خصوصاً جنگ گروپ کے سینئر صحافی سلیم صافی جو لہجے اور مزاج کے دھیمے، سنجیدہ اور معقول معلوم ہوتے ہیں ان کے ساتھ پبلک فورم پر اتنے غصیلے انداز میں کی جانے والی بحث نے یقیناً ان جیسے اور صحافیوں کی بھی حوصلہ شکنی کی ہوگی۔ وہ صحافی جو ادب، علم اور تدبر کے دائرہ میں رہتے ہوئے صحافتی ذمہ داریاں نبھانا چاہتے ہیں اور آمرانہ، بد تہذیب اور بیہودہ سیاسی حربوں سے پاکستانی سیاست کو نجات بھی دلانا چاہتے ہیں۔ سلیم صافی کے لیے شاید شہباز گل کے پیغامات کا جواب دینا کسی مشکل مرحلے سے کم نہیں ہو گا مگر ان کے حوصلے کو سلام ہے کہ انہوں نے اتنی تلخ ٹویٹس کے بدلے میں اپنا تحمل قائم رکھا۔ شہباز گل کا یہ انداز جنگ گروپ کے ٹیلی ویژن جیو ٹی وی نے خصوصی طور پر آشکار کیا۔ اور عوام کو ان کے اس ناقابل قبول رویے کے بارے میں وضاحت پر مبنی بیانات کے ذریعے رائے قائم کرنے میں مدد فراہم کی۔ ان کا ٹارگٹ نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل بلکہ اس سیاسی جماعت کا حامی میڈیا گروپ اے آر وائی بھی رہا۔ جنگ گروپ نے بہت واضح الفاظ میں اس چینل اور میڈیا گروپ کے اسٹیک ہولڈرز کی نجی ترجیحات کے نتیجے میں ریاستی اداروں کی جانب سے عائد کردہ سزائیں اور پابندیوں کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی۔

اس جارح مزاجی کا جواب دینا حقیقتاً سلیم صافی جیسی طبیعت کے حامل صحافیوں کے بس کی بات نہیں۔ اپنے کام کے کی بدولت ان کا جو تشخص عوام کے سامنے ہے وہ جارحانہ مزاجی سے مختلف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ایسے امیج کے مالک صحافی کی نفسیات پر اگر پبلک فورم پر عوام کے سامنے تنقید سے ضرب لگائی جائے تو وہ تدبر پسند صحافتی حلقوں کے لیے دل شکن بات ہے۔ اور اس کے اثرات سے نکلنے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔ ایسے موقعے پر یہ نا معلوم افراد خدائی طاقت سے کم بھی ثابت نہیں ہوتے شاید اسی لیے انہیں ان کا طرز افعال جانچ لیے جانے کے بعد بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کہ چل کوئی بات نہیں سامراجی قوتوں کے پالے ہوئے سہی، کسی شریف طبع انسان کے سر کو کسی زبردست کے ٹھینگے سے نجات دلانے کے لیے بھی تو کام آ جاتے ہیں۔ عجب سراب ہے یہ پاکستانی سیاست کا، انہی گروہوں کو مثبت سوچ کے حامل حلقوں میں حسینی فوجیں بھی کہا جاتا ہے، خدائی طاقتیں بھی کہا جاتا ہے اور منفی سوچ کے حامل غصے اور تعصب کی زد میں آئے، لا قانونیت کا شکار طبقات انہیں ریاستی قوتوں کو عذاب الہی کی وجہ بھی سمجھتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، انسانی حقوق کے تحفظ کے ضامن اور با اثر حکومت ان خفیہ گروہوں پر ہی کیوں منحصر ہے؟ ریاست راست گوئی سے کام لینے میں لا چار کیوں ہے۔ ریاستی اداروں کے استحکام کا ثبوت تب ملتا جب شہباز گل کو کسی سرکاری ادارے کی جانب سے اپنے طرز تکلم میں بہتری لانے کا ایک نوٹس جاری کیا جاتا۔ نا کہ یہ تاثر قائم کیا جاتا کہ یہ قوم ڈنڈے سے ہی مانتی ہے۔ اسی فلسفے کی وجہ سے کروڑوں عوام صرف اسی خفیہ ڈنڈے کی مدد کی منتظر رہتی ہے جس کے نتیجے میں ریاستی اداروں کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ ادارے صرف تنقید کا نشانہ بننے والے تختہ مشق کے طور پر عوام اور سیاست دانوں کی سہولت کاری میں پیش رہتے ہیں۔ نظام کو استحکام بخشنے کے لیے ہمیں اس بات کی اہمیت کو نہیں جھٹلانا چاہیے کہ یہ فرسودہ سوچ اب بدل دینی چاہیے۔ اداروں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہو گا ورنہ خفیہ اداروں اور خفیہ ایجنسیوں پر بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کی عوام کو جہالت کے اس گہرے دلدل میں دھکیل دے گا جہاں سے نکلنا ممکن نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments