حصول رزق حلال عین عبادت ہے


آج بسلسلہ نجی کام لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ٹھوکر نیاز بیگ ٹرمینل پر پہنچا تو وہاں سے آگے متعلقہ جگہ پہ پہنچنے کی خاطر مزید کسی رکشہ یا بس کا سہارا لینا پڑتا ہے ٹرمینل سے باہر نکل کر میں آن لائن سرچ کرنے لگا کہ مجھے کوئی کنوینس مل جائے لیکن نیٹ ورک کی خرابی کی وجہ سے متعلقہ ایپ سے کچھ بھی سرچ کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ یہاں میں آن لائن کنوینس کے بارے میں بتلاتا چلوں کہ اب تقریباً ہر بڑے شہر میں تین سے چار ایسی سروسز ہیں جو شہر کے اندر اور مختلف شہروں کے مابین ٹرانسپورٹ کے لیے آن لائن دستیاب ہوتی ہیں جس میں کریم، اوبر، ان ڈرائیو اور بائیکیا وغیرہ سر فہرست ہیں۔

ان کمپنیز نے اپنی اپنی آن لائن ایپلیکیشنز بنائی ہوئی ہیں ان سروسز کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کو بس اپنی موجودہ لوکیشن اور جہاں پر آپ نے جانا ہوتا وہاں کی لوکیشن لکھنا ہوتی ہے یہ آن لائن ایپس خود کار سسٹم سے ہی اس کا کرایہ تجویز کر دیتی ہیں۔ باقی تینوں تو کرایہ خود ہی بتا دیتی ہیں اس میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی لیکن میرے مطابق ”ان ڈرائیور“ کمپنی کی سروس باقی تینوں کی نسبت زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہاں جب آپ اپنی کرنٹ لوکیشن اور جہاں جانا وہاں کی لوکیشن انٹر کرتے ہیں تو یہ ریکویسٹ ہر قریب ترین نمائندہ تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اس کے کرائے کا تعین کر کے اسی ایپ کے ذریعے بتا دیتے ہیں اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ کتنے کرائے والے کو سیلیکٹ کرتے ہیں۔

اس دن مجھے نیٹ ورک کی خرابی کی بدولت یہ سہولت حاصل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی تو مجھے ایسے کھڑے دیکھ کر ایک شخص جو میرے خیال سے بائیکیا کمپنی کا تھا، آتے ہی مجھے پوچھنے لگا کہ کہاں جانا آپ نے تو میں نے اپنی متعلقہ جگہ کا بتایا۔ اس نے ڈیڑھ سو کرایہ بتایا تو میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چلا گیا۔ اس نے تقریباً دس منٹ میں مجھے وہاں پہنچا دیا۔ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد میں جب واپس ڈائیوو ٹرمینل پر پہنچنے کے لیے میں نے ان ڈرائیور ایپ سے اپنی کرنٹ اور ڈائیوو ٹرمینل کی لوکیشنز انٹر کی تو دیکھا کہ اس کا ساٹھ روپے کرایہ نظر آیا اور باقیوں کا کرایہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہ نوے، ایک سو بیس، ڈیڑھ سو روپے تک نظر آ رہے تھے۔

جب میں ساٹھ روپے والا نمائندہ سیلیکٹ کر کے اس کا پروفائل دیکھا تو وہ ایک بزرگ شخص تھا۔ پانچ منٹ انتظار کے بعد وہ میری لوکیشن پہ پہنچ گئے۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ کر ڈائیوو ٹرمینل پہ پہنچ گیا۔ بیٹھنے سے اترنے تک میں اس شخص کے بارے میں سوچتا رہا۔ یہ بزرگ انسان جو اس عمر میں بھی انتہائی ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے۔ وہ بھی تو دوسروں کی طرح زیادہ کرائے کا تقاضا کر سکتا تھا لیکن اس نے ایمانداری کے ساتھ جتنے بنتے تھے اتنے ہی طلب کیے۔

جب میں منزل پر اترا تو ان کو میں نے ساٹھ کی بجائے ڈیڑھ سو روپے ہی دیے جو انہوں نے میرے پانچ دس منٹ مسلسل اصرار پر قبول کیے۔ کیونکہ وہ اسی پر مصر تھے کہ میری آپ سے ڈیل ساٹھ کی ہوئی تھی تو میں ساٹھ روپے ہی لوں گا۔ میں ان کو جب یہ کہا کہ مجھے اپنا بیٹا سمجھ کر ہی رکھ لیں تب جا کر انہوں نے مجھ سے وہ پیسے لیے۔ اس سچے قصے کا مقصد ہر گز خود کو سخی ثابت کرنا نہیں بلکہ یہ سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ ہم اکثر اپنے ارد گرد، بازار، گلیوں اور راہ داریوں پہ کھڑے بزرگ جو کوئی سبزی یا پھل کی ریڑھی، یا کوئی اور مزدوری کر رہے ہوں تو ان سے کچھ روپے زیادہ مہنگی چیز بھی خرید لیا کریں کیوں کہ وہ اس عمر میں دولت و جائیداد بنانے کے لیے اتنی مشقت نہیں کر رہے بلکہ وہ صرف اپنی بیٹیوں کی شادی یا گھر میں اپنی بوڑھی بیوی اور اپنا پیٹ پالنے کے لیے ہی کر رہے ہیں۔ کوشش کریں کہ پیشہ ور بھکاریوں کو پیسے دینے کی بجائے اپنے ارد گرد ایسے لوگوں سے چیزیں کچھ مہنگے داموں بھی خرید لیا کریں۔ تاکہ ان کی خودداری کو مجروح کیے بغیر ان کی مدد کی جا سکے کیونکہ ایسے لوگ ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنی محنت سے رزق حلال کمانے کو فوقیت دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments