ذہن کیسے بنتا ہے؟


جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا ذہن خالی ہوتا ہے۔ اس کا کوئی نام نہیں ہوتا، نہ اس کی کوئی زبان ہوتی ہے، نہ اس کے کوئی عقائد اور اچھے برے کی تمیز ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اس کو والدین پھر معاشرہ یعنی لوگ سکھاتے ہیں۔ بچہ اپنے بڑوں کو جو کچھ کرتے دیکھتا ہے وہ سیکھ جاتا ہے جو اس کو اچھا برا بتایا جاتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے۔ انسان کے پاس پانچ حواس ہوتے ہیں جس کے ذریعہ دنیا کی معلومات اس کے ذہن کا حصہ بنتی ہیں۔ ان کو حواس خمسہ کہتے ہیں۔

ان پانچ حواس کے ذریعے جو کچھ انسان کے اندر جاتا ہے وہ اس کے ذہن کا حصہ بن جاتا ہے۔ انسان کبھی اس شخص کو نہیں پہچان سکتا جس کے بارے میں اس نے سنا نہ ہو اور دیکھا نہ ہو۔ ہم یہ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی عقائد، ترجیحات، خوبصورتی کے پیمانے اور سچ اور جھوٹ کی تمیز سب اپنے بڑوں سے ملتی ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ سب ایک جیسا ہونے کے باوجود ایک ہی گھر میں لوگوں کا مزاج اور ذہن مختلف ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بچہ ایک مختلف فطرت بھی لے کر آتا ہے دوسرا ماں باپ کا رویہ ایک سا بھی ہو گھر میں صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر جب پہلا بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر میں صرف ماں باپ موجود ہوتے ہیں اس طرح وہ ماں باپ کا پہلا بچہ ہوتا ہے اس کو گھر میں اچھے طریقے سے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اس کے لاڈ بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ جب دوسرا بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر میں ماں باپ کے علاوہ ایک بچہ بھی موجود ہوتا ہے اب اگر ماں باپ وہی سلوک بھی دیں جو انہوں نے پہلے بچہ کو دیا تھا پھر بھی دو بچے ہونے کی وجہ سے ان کا وقت، طاقت اور توجہ تقسیم ہو جائیں گے اور دوسرے بچہ کی صورتحال مختلف ہوگی اس طرح دونوں بچے ایک ہی گھر میں پیدا ہونے کے باوجود مختلف مزاج کے ہو سکتے ہیں اس طرح سکول اور مختلف اداروں میں مختلف لوگوں سے ملنے سے ان کا مزاج، سوچ بدل جاتی ہے۔

یہاں ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ بچہ کا ذہن خالی ہوتا ہے اس لیے والدین یا معاشرہ جو کچھ اس کو بتاتا ہے وہ اس کو بغیر کسی سوال و جواب کے قبول کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ اس کا سچ اور جھوٹ، خوبصورتی اور حتیٰ کہ اس کے اپنے بارے میں نظریہ یہیں سے پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح جب بچے مختلف خاندان، مختلف سماج، مختلف مذاہب وغیرہ میں پیدا ہوتے ہیں تو ان کے نظریات مختلف بنتے ہیں اور وہ پھر ان نظریات سے ایسے جڑ جاتے ہیں کہ ان کا دفاع بھی کرنے لگتے ہیں جیسے ہمارے ہاں ذات، برادری کو لے کر فخر کیا جاتا ہے اور اس کی خاطر لڑ مرنے کو بھی لوگ تیار رہتے ہیں۔

ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف سماج میں سچ اور جھوٹ کے نظریات مختلف ہوں گے اس طرح کوئی ایک نظریہ معاشرہ سے ضرور جڑا ہوتا ہے اور اس کو چلانے کے کام آتا ہے۔ لیکن یہ نظریہ دوسرے معاشرہ کے لیے بالکل نا قابل قبول ہوتا ہے کیونکہ ان کا معاشرہ کسی اور نظریہ کی اساس پر کھڑا ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اس نظریاتی تبدیلی کی وجہ سے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہاں پر یہ سوال بنتا ہے کہ کیا کبھی دو لوگوں کا ایک سا ذہن بن سکتا ہے یا نہیں؟

بنیادی طور پر اس کا جواب نہیں ہے؟ جیسے پہلے ذکر کیا کہ دو لوگ اگر ایک ہی گھر میں بھی پیدا ہو جائیں تو ان کا مزاج، سوچ اور ذہن مختلف ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا پوری دنیا ایک جیسا نظریہ اپنا سکتی ہے۔ اس کے جواب میں ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر انسان سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کا گروہ بنا کر زندگی گزارتا ہے باقی سب سے رشتہ اس کا نظریاتی بنیاد پر ہی بنتا ہے جیسے مسلمان بھائی بھائی ہیں اس نظریے نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو کم از کم ذہنی طور پر اکٹھا کیا ہوا ہے۔

اب یہ کہ کوئی نظریہ کائناتی ہو سکتا ہے؟ میرا خیال ہے ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی مختلف معاشرے اپنی علیحدہ بودوباش قائم رکھیں گے۔ آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان ایک مشین نہیں ہے جو ہر شے کو ایک طرح سمجھے اور معنی دے اس لیے انسان سے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک جیسے ہو جائیں ایک بیہودہ فرمائش ہے ہم کو ذہن کے بننے کے عمل سے یہ سیکھنا ہے کہ ہم مختلف ہو کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے چل سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments