ویں ترمیم، بلدیاتی انتخابات اور وزیر قانون کو توہین عدالت کا نوٹس 15


آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے وزارت امور کشمیر/کونسل کی طرف سے آزاد کشمیر کے آئین میں 15 ویں ترمیم کے مجوزہ مسودے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی طرف سے منعقدہ اس کانفرنس میں 19 سیاسی جماعتوں کے رہنما، نمائندے شریک ہوئے۔ کانفرنس میں 15 ویں ترمیم کی مخالفت کے ساتھ حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ 13 ویں ترمیم کی روشنی میں کشمیر کونسل کے اثاثے اور پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا تصرف آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کیا جائے۔

حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر /کشمیر کونسل کی طرف سے 15 ویں ترمیم کے ذریعے کونسل کو مالیاتی، انتظامی اختیارات دیتے ہوئے آزاد کشمیر کی حیثیت میں تنزلی کی اس کوشش کے خلاف متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت اور آزاد کشمیر میں عوامی احتجاجی مظاہروں سے 15 ویں ترمیم کے خلاف ایسا دباؤ سامنے آیا کہ پاکستان کے ارباب اختیار وزارت امور کشمیر و کونسل کے مشیر قمر الزمان قائرہ کو فوج کے ہیلی کاپٹر پہ مظفر آباد بھیجا گیا جہاں انہوں نے 15 ویں ترمیم کے حق میں وضاحتیں دیتے ہوئے اس معاملے کو سیاسی بیان بازی کے انداز میں رائے عامہ پہ اثر انداز ہونے کی ناکام کوشش کی۔

آل پارٹیز کانفرنس کے بعد مسلم لیگ نون آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے ضلع کوٹلی کے دورے کے موقع پر کہا کہ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، پاکستان مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال، وزیر قانون اعظم تارڑ نے آزاد کشمیر کے آئین میں 15 ویں ترمیم لائے جانے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بھی کہا کہ 15 ویں ترمیم کے حوالے سے ان کے پاس کوئی کاغذ نہیں آیا۔

حقائق یہ ہیں کہ یکم جولائی 2022 کو حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر کے جائنٹ سیکرٹری ریاض احمد کا مکتوب چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کو ارسال کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے 30 جون 2022 کو وزیر قانون کی سربراہی میں تشکیل کردہ ایک اعلی سطح کمیٹی قائم کی گئی، جس کے تحت حکومت آزاد کشمیر کے پاکستان کی صوبائی حکومتوں کے ساتھ افعال اور حکومت پاکستان کے آزاد جموں وکشمیر کے ساتھ وفاقی یونٹس کے رابطے کے تناظر میں 15 ویں ترمیم کے مجوزہ مسودے کو حتمی طور پر تیار کرنے کے حوالے سے ایک سب کمیٹی قائم کی گئی۔

سب کمیٹی نے سونپا گیا اپنا کام 31 جولائی 2022 تک مکمل کرنا ہے، اس سب کمیٹی کے 6 ارکان میں سے 3 ارکان حکومت پاکستان سے ہیں، وزیر قانون، وزیر دفاع، اور امور کشمیر و گلگت بلتستان اور 3 ارکان حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے۔ وزارت امور کشمیر کے اس مکتوب میں چیف سیکرٹری آزاد کشمیر سے کہا گیا کہ اس سب کمیٹی کے لئے حکومت آزاد کشمیر کے تین افسران کی تقرری جلد از جلد کی جائے۔ چیف سیکرٹری آزاد کشمیر محمد عثمان چاچڑ نے یکم جولائی 2022 کوہی جائنٹ سیکرٹری وزارت امور کشمیر کے اسی مکتوب پر اپنے ہاتھ سے اس سب کمیٹی کے لئے تین ارکان کی تقرری کی سفارش کرتے ہوئے یہ مکتوب وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کو ارسال کیا۔

یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ وزارت امور کشمیر کے چیف سیکرٹری کو ارسال مکتوب سے پہلے ہی 3 جون 2022 کو آزاد کشمیر کے محکمہ سروسز کے ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ کی طرف سے ایک نوٹیفیکیشن آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ 12 مئی 2022 کو کابینہ کے اجلاس میں مجوزہ 15 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت پر وزارت امور کشمیر، کشمیر کمیٹی، پارلیمانی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد سفارشات مرتب کرنے کے لئے وزیر آزاد کشمیر حکومت کی سربراہی میں 11 رکنی کابینہ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں آزاد کشمیر حکومت کے 9 وزیر اور سیکرٹری زراعت و سیکرٹری قانون شامل ہیں۔

اسی دوران حکومت آزاد کشمیر کے محکمہ قانون کے حوالے سے وزارت امور کشمیر کی طرف سے ارسال کردہ 15 ویں ترمیم کا مجوزہ مسودہ بھی سامنے آیا۔ اس کے بعد 3 اگست 2022 کو وزارت امور کشمیر کے مشیر قمر الزمان قائرہ مظفر آباد آئے اور انہوں نے ایک طویل پریس کانفرنس میں مجوزہ 15 ویں ترمیم کی وکالت کرتے ہوئے انہی نکات کا دفاع کیا جو مسودہ آزاد کشمیر کے محکمہ قانون کی طرف سے سامنے آیا تھا۔ اس تمام صورتحال کی روشنی میں یہ کہنا کہ 15 ویں ترمیم کی کوشش، اس کا مسودہ من گھڑت اور بے بنیاد ہے اور اس بارے میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور حکومت پاکستان کے وزیر قانون اعظم تارڑ اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، تعجب انگیز اور خلاف حقیقت بات معلوم ہوتی ہے۔

آزاد کشمیر میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ آزاد کشمیر کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں، حکمران جماعت تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے حلقوں کی طرف سے ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حق میں نہیں ہیں لیکن عوامی مطالبے اور سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے علانیہ طور پر بلدیاتی الیکشن کی مخالفت ظاہر نہیں کی جا رہی تھی۔

تاہم 10 اگست کو مسلم لیگ نون کے صدر شاہ غلام قادر نے کوٹلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ”موجودہ صورتحال میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو یہ خون خرابے اور اور فتنہ و فساد کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا“ ۔ یوں مسلم لیگ نون آزاد کشمیر بلدیاتی انتخابات کی علانیہ مخالفت کرنے والی پہلی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔

10 اگست کو ہی ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ آزاد کشمیر کے وزیر قانون فہیم ربانی نے چیف جسٹس کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ان سے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے سیکرٹریز کا اجلاس طلب کرنے کی بات کی۔ ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ میر پور سرکٹ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مورخہ 10 اگست 2022 کو چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر کو وزیر قانون کے ذاتی معاون کی کال موصول ہوئی اور اس نے کہا کہ وزیر قانون جناب چیف جسٹس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

چنانچہ وزیر قانون نے فون پر استدعا کی کہ آپ سیاسی جماعتوں کے جملہ سیکرٹری صاحبان کا اجلاس طلب کریں۔ بادی النظر میں وزیر قانون کا یہ طرز عمل نامناسب ہونے کی بنا پر توہین عدالت اور چیف جسٹس کی اتھارٹی کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ معاملے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے جناب چیف جسٹس نے ججز کونسل کا اجلاس فوری طلب کیا جس میں معاملہ ہذا زیر بحث آیا۔ ججز کونسل نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ وزیر قانون کے اس نامناسب طرز عمل پر وضاحت طلب کی جائے۔

چنانچہ جوڈیشل کونسل نے وزیر قانون کو اصالتا عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آج مورخہ 10 اگست 2022 کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ معاملہ ہذا میں کارروائی اب روبرو عدالت گرامی مورخہ 12 اگست 2022 سپریم کورٹ آف آزاد جموں وکشمیر بمقام میر پور میں لائی جائے گی۔ آزاد کشمیر حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی اس موقع پر پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments