رشدی پر حملہ اسلام یا مسلمانوں کو سرخرو نہیں کر سکتا


نیویارک میں ایک ایرانی نژاد نوجوان نے بدنام زمانہ ناول ’شیطانی آیات‘ کے مصنف سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کیا ہے۔ گزشتہ روز نیویارک کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے اس حملہ میں رشدی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ انہیں آپریشن کے بعد وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے اور ان کی زندگی کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ سلمان رشدی کی جان کو گزشتہ 33 برس سے خطرہ تھا اور وہ شدید حفاظتی حصار میں خفیہ زندگی گزار رہے تھے۔

یہ حملہ غیر متوقع تو نہیں ہے لیکن حیران کن ضرور ہے کیوں کہ نہ تو سلمان رشدی کے خلاف ایران نے فتویٰ واپس لیا ہے اور نہ ہی دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف بظاہر بعض کامیابیوں کے باوجود اسلامی انتہا پسندی میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لئے یہ حیرانی کی بات ہے کہ ایک ایسے اجتماع میں جہاں سلمان رشدی جیسے شخص کو خطاب کرنا تھا سیکورٹی کے معاملہ میں ایسی چوک ہو گئی کہ ایک شخص کو ان پر حملہ کرنے اور شدید زخمی کرنے کا موقع مل گیا۔ بعض مسلمان حلقوں میں اس حملہ کے بعد خوشی کا اظہار بھی دیکھنے میں آیا ہے اور یہ بھی سنائی دیا ہے کہ آخر ملعون اپنے انجام کو پہنچا۔ یہ خوشی و اظہار اطمینان معروضی حالات، اسلام کے پیغام اور مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں شدید لاعلمی کا عکاس ہے۔

اس کے برعکس دنیا بھر میں عام طور سے اور مغربی ممالک میں خاص طور سے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور اس قسم کی پرتشدد کارروائیوں کو شدید ناپسند کرتی ہے اور انہیں مسترد کرتی ہے۔ لیکن یا تو انہیں اپنی بات کہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا یا ان کی دلیل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ مسلمان ممالک میں شدت پسند گروہوں کے علاوہ مین اسٹریم لیڈر بھی اسلام کو اپنی سیاسی اپیل بڑھانے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات ابھارنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ نہایت احتیاط سے کام لیتے ہوئے بھی یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ شدت پسندوں سے زیادہ ایسے مقبولیت پسند لیڈروں نے گمراہ کن اور نامکمل پروپیگنڈا کی بنیاد پر عام مسلمانوں میں اسلامی حساسیات کے بارے میں گمراہ کن اور بے بنیاد تصورات کو راسخ کیا ہے جو بالآخر کسی ایسے واقعہ کا سبب بنتے ہیں جو گزشتہ روز نیویارک میں سلمان رشدی پر حملہ کی صورت میں دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی یورپ کے متعدد ممالک میں اشتعال انگیز یا گستاخانہ خاکے بنانے والے لوگوں پر حملے ہوتے رہے ہیں یا انہیں قتل کیا جاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ناروے میں سلمان رشدی کے پبلشر ولیم نی گورڈ پر نوے کی دہائی میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا یا انہی دنوں جاپان میں ’شیطانی آیات‘ نامی ناول کا ترجمہ کرنے والے شخص کو قتل کیا گیا تھا۔

اس صورت حال میں تین سے زیادہ دہائیاں گزرنے کے باوجود کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس میں اسلام کے نام پر دہشت گرد گروہ تیار کر کے دنیا میں اسلام کا احیا کرنے والے تشدد پسند عناصر کا بھی بہت بڑا حصہ ہے لیکن اس معاملہ میں مین اسٹریم لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کا کردار سب سے زیادہ قابل غور ہے جو ان برسوں میں دنیا کے مسلمانوں کو تشدد کے خلاف یک زبان ہونے اور قتل و غارت گری سے تائب ہونے پر آمادہ نہیں کرسکے۔ اگرچہ دنیا کے بیشتر مسلمان ممالک تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور دہشت گردی کی کسی بھی واردات پر لاتعلقی کا اعلان بھی دیکھنے میں آتا ہے لیکن عملی طور سے تقریباً ہر ملک کی مسلمان آبادی میں مذہبی انتہاپسندی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر مذہب سے یہ تعلق مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح کا سبب تو نہیں بنا لیکن مذہبی علامات کے حوالے سے خوں ریزی کا جذبہ فزوں تر ہوا ہے۔ اس لئے اسلام سے جڑے کسی بھی تشدد کو دہشت گردوں کی کامیابی سے زیادہ مسلمان مذہبی رہنماؤں اور سیاسی لیڈروں کی ناکامی سمجھنا مناسب ہو گا۔ یہ عناصر کسی بھی طور سے عصر حاضر کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے اہل نہیں ہیں اور نہ ہی عوام کو وسیع تر تصویر دکھانے اور انہیں بقائے باہمی اور ایک دوسرے کے ساتھ انسانی مساوات پر آمادہ و تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوگی، نہ مسلمانوں میں تشدد کا رجحان کم ہو گا اور نہ ہی دنیا کی دیگر اقوام اور مذاہب میں انہیں وہی احترام و اعزاز حاصل ہو گا جو امن کے ساتھ اپنی بات کہنے والے عقائد کو حاصل ہے۔

مغربی ممالک میں تشدد کے واقعات میں خاص طور سے بربریت کا مظاہرہ بھی قابل توجہ ہے۔ یعنی اپنے تئیں اسلام مخالف یا ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے عناصر پر صرف حملہ ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اس میں شدید بربریت کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ اس کی کلاسیکل مثال اکتوبر 2020 فرانس میں پیرس کے نواح میں ایک اسکول ٹیچر سیموئل پیٹی کے وحشیانہ قتل میں سامنے آئی تھی۔ اس استاد پر کلاس میں تدریس کے دوران پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکے دکھانے کا الزام تھا۔ ایک نوجوان نے جو اس کی کلاس کا حصہ نہیں تھا، نہ صرف چاقو سے اسے قتل کیا بلکہ اس کا سر قلم کر کے اس قتل کو بربریت و عبرت کی مثال بنایا۔ اب یہی طریقہ سلمان رشدی پر حملہ کی صورت میں دیکھنے میں آیا ہے۔

حملہ آور نے چاقو سے حملہ کیا۔ اس حملہ میں وہ وار کر کے اپنا مقصد حاصل کر سکتا تھا لیکن اس نے حملہ میں اپنے شدید غصہ کا اظہار کیا اور قتل کے علاوہ اپنے نشانے کو شدید اذیت میں مبتلا کرنے کے ارادے سے وار کیے۔ خبروں کے مطابق جب اسے پکڑ لیا گیا تو بھی وہ دشنام طرازی کرتا ہوا لپک لپک کر حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ طرز عمل محض اس غم و غصہ کا اظہار نہیں ہے جو اپنے مذہب یا رسول کی توہین کرنے پر کسی مسلمان میں پایا جاتا ہے بلکہ اس میں اس منصوبہ کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے جو نوجوانوں کو ایسے جرم کے لئے تیار کرنے والوں کے پیش نظر ہوتا ہے۔ یعنی کسی ٹارگٹ کو قتل کرنا ہی مقصد نہیں ہوتا بلکہ بربریت کے مظاہرے سے خوف پیدا کرنا اصل مقصد ہوتا ہے۔ منصوبہ سازوں کے نزدیک یہ خوف پیدا کرنے کی وجہ جو بھی ہو لیکن اس خوف کی وجہ سے دنیا میں عام طور سے اور مغربی ممالک میں خاص طور سے مسلمان آبادیوں کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔ بظاہر کسی ’اسلام دشمن‘ پر حملہ اور اسے نیست و نابود کرنے کا کوئی واقعہ درحقیقت مسلمانوں کے بارے میں شبہات میں اضافہ کرتا ہے اور مقامی آبادیاں ان سے میل جول کے بارے میں محتاط ہوجاتی ہیں۔

سلمان رشدی کا ناول ’شیطانی آیات‘ 1988 میں شائع ہوا تھا۔ یہ ناول مشکل انگریزی زبان اور ایک پیچیدہ پلاٹ پر استوار الجھی ہوئی کہانی بیان کرتا ہے۔ عام قاری اسے پڑھ کر کسی نتیجہ پر پہنچنے کا اہل نہیں ہے۔ اس کے باوجود بعض عناصر نے اسے مغرب کی اسلام دشمنی اور مصنف کی گستاخی کی علامت بنا کر پیش کیا اور سب سے پہلے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے جس میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے نتیجہ میں 12 فروری 1989 کو اسلام آباد میں ناراض ہجوم نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا۔ اس موقع پر پانچ مظاہرین جاں بحق ہوئے۔ اس وقوعہ کے دو روز بعد ایران کے مذہبی پیشوا آیت خمینی نے سلمان رشدی کو قتل کرنے اور ایرانی حکومت نے قاتل کے لئے کثیر رقم انعام دینے کا اعلان کیا۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لئے ہونے والے مذاکرات کے دوران یہ خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ ایران اس فتوے کو واپس لے لے گا لیکن اس کا اعلان کرنے کی نوبت نہیں آئی۔

آیت اللہ خمینی کے فتوے کو عالم اسلام میں قبول نہیں کیا گیا لیکن مسلمانوں کے عمومی جذبات کی وجہ سے کسی بھی عالم دین نے اس فتوی کو مسترد کرنے یا یہ قرار دینے کا حوصلہ بھی نہیں کیا کہ امام خمینی کا فتوی مذہبی حکم سے سیاسی ڈاکٹرائن کی حیثیت رکھتا ہے جو امریکہ اور مغرب کے خلاف ایرانی حکمت عملی کا رہنما اصول ہے۔ راقم الحروف ان دنوں ریڈیو ناروے کی اردو سروس منسلک تھا اور اس حیثیت میں برصغیر کے متعدد جید علما سے گفتگو کرنے اور رائے لینے کا اتفاق ہوا لیکن ان میں سے کوئی بھی اس فتوی پر براہ راست بات کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی سلمان رشدی کی متعلقہ کتاب کے حوالے سے خود فتوی دینے یا مذہبی صراحت کرنے پر آمادہ تھا۔ جید بریلوی عالم مفتی محمد نعیمی نے اس حوالے سے استفسار پر بتایا تھا کہ فتوی ایک علمی اور مذہبی ذمہ داری ہے۔ انہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ اگر ان سے ’شیطانی آیات‘ پر فتویٰ لینا مقصود ہو تو ’اس کتاب کا اصل مسودہ، اس کے مصدقہ اور قابل اعتبار اردو ترجمہ کے ساتھ فراہم کیا جائے‘ ۔ تب ہی وہ اس کے مطالعہ کے بعد کسی ایسے نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ فتوی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرسکیں۔ مفتی صاحب کی اس گفتگو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح مذہبی و سیاسی لیڈر محض وقتی شہرت اور فائدے کے لئے اشتعال انگیزی اور عوام کو گمراہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

سلمان رشدی پر حملہ مسلمانوں کی کامیابی نہیں ہے۔ اس پر خوشی منانا ایسے ہی ہے جیسے نائن الیون کے بعد بعض عاقبت نا اندیش مسلمانوں نے اسے امریکی ہزیمت قرار دیتے ہوئے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ اس حملہ کو دنیا میں مسلمانوں کی وسیع تر سیاسی و سماجی صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی لئے مسلمان لیڈروں کو اس حملہ کی مذمت کرنی چاہیے اور اس سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ حملہ سلمان رشدی پر ضرور ہوا ہے لیکن اس کا اصل نشانہ مسلمانوں کی نیک نامی، ان کی شہرت اور ان کے دین کے بارے میں تصورات کو بنایا گیا ہے۔ جب تک مسلمان رہنما و عوام مذہب کے نام پر ہمہ قسم تشدد سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کریں گے، اس وقت تک دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں غیر مسلم آبادیوں کی رائے کو مثبت انداز میں متاثر کرنا ممکن نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments