عمران خان کا سیاسی گھیراؤ اور نو نشستوں پر پی ڈی ایم کی چال


الیکشن کمیشن کے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس بارے فیصلہ سے جہاں سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے وہاں وسیع البنیاد حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے خلاف مضبوط چارج شیٹ آ گئی ہے۔ وزرا، مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام سمیت اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے سرکردہ رہنما سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے جاری کردہ صادق و امین سرٹیفکیٹ کے حامل کپتان پر گولہ باری کر کے پی ٹی آئی کے لئے پسپائی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کی گرفت سے بچنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی کارروائی غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی ہے اور الیکشن کمیشن کا شو کاز نوٹس بھی کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پی ٹی آئی کی درخواست پر کیا فیصلہ سناتی ہے۔ سر دست پی ٹی آئی سیاسی میدان میں پسپائی اختیار کر رہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں میں ضمنی انتخابات کرانے کے لئے شیڈول کا اعلان کیا تو عمران خان نے بھی 9 حلقوں سے انتخاب لڑنے کا اعلان کر کے سیاسی حلقوں کو سرپرائز دیا لیکن عمران خان کے اس اعلان کی سیاہی ہی خشک نہ ہو پائی تھی کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں میں ضمنی انتخابات شیڈول رکوانے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ بھلا ہو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کا جنہوں نے پی ٹی آئی کی ضمنی انتخاب رکوانے کی درخواست مسترد کر دی اس درخواست سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا 9 حلقوں سے لڑنے کا اعلان محض سیاسی بیان ہے جو سنجیدگی سے عاری ہے۔

عمران خان پچھلے چار ماہ سے موجودہ حکومت پر قبل از وقت انتخابات کرانے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ پی ڈی ایم نے انہیں ضمنی انتخابات میں الجھا دیا ہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت کئی لیڈر ایک سے زائد قومی اسمبلی کے حلقوں سے انتخاب لڑنے کی عیاشی کر چکے ہیں جب کہ خود عمران خان بھی ماضی میں ایک سے زائد حلقوں سے انتخاب لڑنے کے تجربات کر چکے ہیں۔ 1997 میں تو انہوں نے کم وبیش 11 حلقوں سے انتخاب لڑا تھا لیکن انہیں سب ہی حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا 2002 کے انتخابات میں انہوں نے پہلی بار میانوالی سے کامیابی حاصل کی جب کہ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے 5 حلقوں سے انتخاب لڑا تو انہیں پانچوں نشستوں پر کامیابی ہوئی لیکن نشستیں خالی کرنے پر پی ٹی آئی کو کئی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اسے حسن اتفاق کہیں یا باقاعدہ تحقیق کے بعد چالاکی کہ صرف ان حلقوں کو خالی قرار دیا گیا ہے جہاں پی ٹی آئی چند سو ووٹوں سے انتخاب جیتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں ان نشستوں سے پی ڈی ایم کا الیکشن جیتنا قدرے آسان ہے۔ اب تو سندھ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے میاں محمد سومرو کی مسلسل 40 روز غیر حاضری پر نشست خالی قرار دے دی ہے۔ انہوں نے تاحال اپنی نشست سے استعفاٰ نہیں دیا تھا اور وہ بعد از وقت بیماری کی رخصت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پیپلز پارٹی کی نظریں اس نشست پر لگی ہوئی تھیں سو وہ اس نشست پر آسانی سے کامیابی حاصل کر لے گی۔ شاید عمران خان نے یہ سوچ کر کہ ان کے ہاتھ سے کچھ نشستوں کے چلے جانے کا امکان ہے تو وہ خود انتخابی معرکہ میں اتر آئے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ جب عمران خان نے موجودہ قومی اسمبلی میں واپس جانا ہی نہیں تو پھر ضمنی انتخابات میں 9 حلقوں میں خواری کا کیا فائدہ؟ قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے انتخاب پر سرکاری طور پر 5 کروڑ سے 10 کروڑ روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ اس طرح 9 حلقوں کے انتخابات پر کم و بیش 50 کروڑ سے ایک ارب روپے تک خرچ کرنے کے بعد عمران خان نے قومی اسمبلی میں قدم ہی نہیں رکھنا تو پھر اتنی قومی دولت کا ضیاع کیوں کیا جا رہا ہے؟ عمران خان کے 9 انتخابی حلقوں پر اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانے کی عیاشی سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ پی ٹی آئی میں عمران خان کے علاوہ کوئی لیڈر پی ڈی ایم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان دباؤ میں آ گئے ہیں۔ چاروں اطراف سے ان کا سیا سی گھیراؤ کیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور نہ جانے کہاں سے فون آیا اور وہ اپنا جلسہ پریڈ گراؤنڈ سے ہاکی گراؤنڈ لاہور لے گئے جہاں آسٹرو ٹرف اکھاڑنے پر لاکھوں روپے کی لاگت آئے گی اور آسٹرو ٹرف بھی خراب ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی کے رکن محسن شاہ نواز رانجھا کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی نے عمران خان کی نا اہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ہے۔

محسن رانجھا نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے تحائف کا اپنے سالانہ گوشوارہ میں ذکر نہیں کیا ہے۔ لہذا ان کو الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔ طیبہ گل کو وزیر اعظم ہاؤس میں محبوس رکھنے کے کیس کی پہلے ہی تحقیقات ہو رہی ہے۔ اس کیس کے ڈانڈے عمران خان تک ملائے جا ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے بعد وفاقی حکومت بھی چین سے نہیں بیٹھی ہے۔ اس نے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کے کرداروں کے بارے میں مزید تحقیقات کا کام ایف آئی اے کے سپرد کر دیا ہے۔ آئندہ چند دنوں تحقیقات مکمل ہونے بعد وفاقی حکومت ڈیکلریشن فائل کر کے گیند عدالت عظمیٰ کی کورٹ میں پھینک دے گی۔

لہذا جہاں عمران خان اگست میں پی ڈی ایم کی حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں وہاں پی ڈی ایم بھی ان کا سیاسی گھیرا تنگ کر کے چاروں شانے چت کر کے اپنے لئے میدان خالی کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سر دست عمران خان کو یہ زعم ہے کہ کوئی قوت ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی لیکن تین چار روز قبل وفاقی حکومت نے ایک نجی ٹیلی ویژن پر مسلح افواج کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے پر عمران خان کے چیف آف سٹاف محمد شبیر المعروف شہباز گل پر بنی گالہ میں عمران کان کی رہائش گاہ کے سامنے ہاتھ ڈالا ہے۔

اسی طرح ایف آئی اے کا سائبر کرائمز ونگ فوج کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے والوں کا سراغ لگا رہا ہے۔ وہاں ان بے مہار کارکنوں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان کے سوا پی ٹی آئی کے کسی قد آور لیڈر نے شہباز گل کی گرفتاری پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا حکومت نے ان گرفتاری کو آئین و قانون کے عین مطابق قرار دیا ہے۔

شہباز گل کی گرفتاری حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس کے بعد پورے ملک میں فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے۔ دیدہ دلیری سے فی پوسٹ معاوضہ لینے والے اپنے بلوں میں گھس گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے وسیع البنیاد وفاقی حکومت کی رٹ کو بار بار چیلنج کر رہی تھی۔ بالآخر وفاقی حکومت نے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کر کے اپنے وجود احساس دلا دیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے۔ آنے والے دنوں میں عمران خان کا سیاسی گھیرا مزید تنگ کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments