ایک نمبر کی ضدی عورتیں


ہمارے معاشرے کی روایات بالکل سادہ سی ہیں کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں کہ دماغ میں مشکل سے سمائے۔ ہاں مانا کہ یہ بیوقوف ہوتی ہیں مرد کے مقابلے میں، اسی لیے بچپن سے سب سکھا دیا جاتا ہے ان کو۔

اٹھتے بیٹھتے بتایا جاتا ہے کہ کیسے دبے لہجے میں بات کرنی ہے، کتنا ہنسنا ہے، کتنا سینا اندر رکھ کر چلنا ہے کہ زیادہ باہر بھی نہ ہو اور اتنا اندر نہیں کہ کبڑی ہو جائیں، کتنی ٹانگیں سکیڑ سکیڑ کر بیٹھنا ہے، کیسے مزاج کے خلاف باتوں پر دیدے نہیں پھاڑنے، پھر بھی اکثر وہی کوڑھ مغز رہتی ہیں۔

تقریباً والدین تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنی لڑکیوں کو تہذیب سکھائیں، ضرورت سے زیادہ نہ پڑھائیں، کم سے کم آزادی دیں باہر جانے کی، اور نوکری تو بالکل نہ کروائیں کہ معلوم ہوا ہاتھوں سے نکل جائیں؟

لیکن صاحب پھر بھی کچھ عجیب و غریب لوگ ہیں جو بیٹیاں پیدا کر کے اپنی اس کھسیاہٹ کو چھپانے کے لیے انھیں خوب اونچی اڑان کے نہ صرف خواب دکھاتے ہیں بلکہ اس کے لیے اپنی کمائی بھی لگا دیتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنی نفلوں کا ثواب کماتے ہیں یہ لوگ؟ ارے کوئی پوچھے کہ آخر کو تو اس نے دوسرے گھر جانا ہی ہے تو تم لوگ کس لیے یہ بوجھ ڈھوتے ہو؟ کون سا تم نے قیامت تک یہاں بیٹھے رہنا ہے کہ بیٹی کو اگلے گھر میں جا کر اپنی عزت کے جھنڈے بلند کرتے دیکھ سکو گے؟ پھر بھی اس کو یہی سننا ہو گا کہ ”زیادہ پڑھ لکھ کر دماغ خراب ہے بی بی کا“ یا ”نبھانے والی نہیں ہوتیں یہ نام نہاد خود مختار عورتیں“

چلیں یہ تو ہوئیں متوسط طبقے کی باتیں، لیکن یہ بھی سب ہی جانتے ہیں کہ پڑھے لکھے یا اپر کلاس میں ڈاکٹر لڑکی کو بہو کے طور پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ شادی کے بعد اس ڈاکٹرنی کو بھی چولہا ہانڈی کرنا ہو گا یا کم از کم اپنے بچے تو خود ہی پالنے ہوں گے نا؟ کیوں کہ اس کی شادی کسی اچھے خاندان میں ہوئی ہے تو نوکری کی ضرورت تو خیر سے پیش ہی نہیں آتی تو پھر نرا درد سر کیوں پالنا ہے بی بی؟ لیکن اکثر لڑکیاں رولا ڈالتی پائی جاتی ہیں کہ:

”ہمیں اپنا کیریئر جاری رکھنا ہے یہ سب شادی سے پہلے سسرال والے بتاتے کہ ہم شادی کے بعد جاب کے حق میں نہیں وغیرہ وغیرہ“

اب کوئی بتاؤ ان کو کہ محترمہ آپ کیا کسی اور گولے سے نمودار ہوئی تھیں؟ یا اسی معاشرے میں آنکھیں موندے ہی ڈاکٹر بن گئیں؟ تم نہیں جانتی تھیں کہ کیسا ہے ہمارا معاشرہ اور اس کی اقدار؟ کہ تھوڑے بہت دوہرے معیار تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں دنیا بھر میں؟ اور یہ عورتوں کے حقوق کا آسیب جو ہمارے ہاں لوگوں پر چڑھ گیا ہے توبہ ہے، امریکی اور یہودی سازش ہے نری۔ اور میں تو کہتی ہوں کہ ان سے عبرت لو اتنا جو دم بھرتے ہو تم لوگ مغربیت کا تو اگر یہ اتنے ہی آزاد ہیں تو کیوں بھلا ان کی عورتوں کو یہ سب تحریکیں چلانی پڑ گئیں می ٹو، شی ٹو؟

اور تو اور پورا معاشرہ جانتا ہے کہ دوہرے معیار کس قدر عام ہیں یہاں لیکن کچھ عورتیں تو ایسے ناک بھوں چڑھاتی ہیں گویا آسمان سے ہی اتری ہیں۔ اگر کسی کا اپنا بیٹا کالا ہے اور اس کے لیے گوری لڑکی چاہیے تو اس میں کیا گناہ ہے؟ لڑکے کی شکل تو شادی میں دیکھی ہی نہیں جاتی تھی شروع سے ہمارے ہاں؟

ہاں ٹھیک ہے کہ شادی کر کے لڑکی کو سسرال جانا ہوتا ہے اس لیے پہلے لڑکے کا گھر دیکھنا چاہیے، لیکن اگر پہلے لڑکی کے گھر لڑکے کا خاندان آ گیا تو اس میں کیا برائی ہے؟ اور اگر لڑکی والوں سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا اپنا گھر ہے یا کرائے کا تو اس کا بتنگڑ بنانے کی بھی کیا ضرورت ہے؟ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ ”سوسائٹی“ کی نارمز ہیں بھئی۔ اب دیکھ لیں نا طلاق کی شرح کہاں سے کہاں جا رہی ہے۔ کیوں؟ اسی طرح کی باتوں پر آواز اٹھانے سے ہو رہا ہے یہ سب۔ کیوں آپ کی اماں اور باقی عورتوں نے بھی تو اسی معاشرے میں شادی کی، سب برداشت کیا؟ تو آپ سب کو کیا مسئلہ ہے پھر؟ آپ کی پروگرامنگ میں کون سا کیڑا آ گیا جو آپ کو پہلے جیسا آؤٹ پٹ دینے سے باز رکھتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments