غناسطیت یا ناسٹسزم کیا ہے؟


 

غناسطی یا غناسطیت ایک اصطلاح ہے جس کا اردو ترجمہ ”عرفانیت“ کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک الیہاتی فلسفہ ہے اس کی ابتداء کب اور کہاں سے شروع ہوئی اس کے بارے میں تاریخ ہنوز خاموش ہے۔ اس کی بنیادی مبادیات مختلف کرنتھوں اور اتیمتھیس کی آیات بنیں اور قاموس الکتاب میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ مگر مختلف محققین نے اپنے تئیں اس کی شرح بھی کی اور مبادیات کے حوالے سے کچھ مباحث بھی بیش کیں، بہرکیف اس کی کسی حد تک تفہیم ممکن ہو سکی ہے۔

غناسطیوں کے نزدیک ”یہ دنیا ایک زندان ہے۔ ایک کال کوٹھری ہے۔ جس میں انسان مقید ہے۔ لہذا اس کائنات کی کوئی منظم اور منطقی شکل نہیں ہے۔“ بقول ہائیڈئیگر: ”انسان کو دہشت میں اپنی اس دنیا میں موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔“ دوسرے لفظوں میں یہ دنیا دہشتناک ہے، دنیا کوئی معنوی اور منطقی شکل نہیں رکھتی جس سے ہم آہنگی پیدا کر کے انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھ لے، یہ دنیا انسان کے لئے خوب صورت محل یا مضبوط قلعہ نہیں بلکہ اس کے دشمنوں کے کیمپ کی علامت زیادہ موزوں ہے۔

درحقیقت یہ کوئی منظم فکر یا فلسفہ نہیں تھا۔ اس فکر میں مختلف مکاتیب فکر کے مختلف چربے شامل کیے گئے۔ ان سب میں مشترک باتیں کچھ یوں تھیں کہ ؛۔ ”نروان یا نجات ایک خفیہ علم کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے جو وجدان یا میڈیٹیشن سے حاصل ہو سکتا ہے۔“ اس کے تمام فرقوں کا خیال تھا کہ عرفان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کا وجود صرف ثنویت سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی اس کائنات میں دو خدا ہیں ایک اچھائی کا اور دوسرا برائی کا۔ یہ دونوں صفات کسی ایک خدا کا خاصا نہیں ہو سکتیں یا پھر یہ دونوں صفات ایک ساتھ کسی ایک خدا میں نہیں ہو سکتیں۔ اچھائی کا خدا الگ ہے اور تھوڑا کمزور بھی ہے جبکہ برائی کا خدا اچھائی کے خدا سے زیادہ طاقتور ہے۔

ان دونوں خداؤں کے درمیان صدور کا ایک سلسلہ تھا جو نیکی سے بدی کی طرف بتدریج جاتا ہے۔ مادہ بدی کی علامت سمجھا جاتا تھا چونکہ خدا نیکی کا مظہر تھا اس لئے نجات حاصل کرنے کے لئے اور خدا کی قربت میں پہنچنے کے لئے ضروری تھا کہ انسان اس خفیہ عرفان کے ذریعے خدا کے پاس جائے۔

غناسطیت کو ہمیشہ مسیحیت کا ساتھ جوڑ کر دیکھا گیا کیونکہ عیسایت میں دو خداؤں کا تصور موجود ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ غناسطیت کا مسیحیت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ فلسفہ مسیحیت کے بالکل بر عکس ہے۔ اگرچہ غناسطیت کی کچھ اشکال مسیحی ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ سر بسر غیر مسیحی ہیں۔

مختلف مذہبی محققین کا یہ کہنا ہے کہ غناسطیت شاید پہلی وہ بدعت تھی جس نے مسیحیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ غناسطیت کے علمبردار بنیادی طور پر افلاطون سے متاثر تھے جن کو بعد میں انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق بدلا بھی اور اپنے منشور کے طور پر بھی پیش کیا۔ ان کے دو اہم بیانیے یہ تھے۔

1۔ مادہ بذات خود ایک برائی ہے اور روح نیکی ہے۔ یہ لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ جسم میں ہونے والا کوئی بھی کام، یہاں تک کہ بڑے سے بڑا گناہ کے بھی کوئی معنی نہیں ہیں کیوں کہ حقیقی زندگی صرف روحانی عالم میں وجود رکھتی ہے۔

2۔ غناسطیت کے علمبردار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایسا برتر علم رکھتے ہیں جس سے صرف چند لوگ ہی واقفیت رکھتے ہیں۔ غناسطیت کے لئے انگریزی اصطلاح ”Gnosticism“ ہے جو یونانی لفظ ”غناسس“ سے اخذ کی گئی ہے جس کے معنی ہیں ”جاننا یا علم حاصل کرنا“ ۔ پس غناسطیت کے ماننے والے جس ”برتر و عظیم علم“ کا دعویٰ کرتے ہیں وہ علم انہوں نے گوسپیل یا انجیل مقدس سے نہیں بلکہ موجودات کے بعض پوشیدہ و بلند میدانوں سے حاصل کیا ہے۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کے پاس خدا کے بارے میں جو علم ہے وہ برتر، اعلیٰ اور گہرا ہے اور اس لئے وہ خود کو دوسرے لوگوں سے عظیم اور مقدم گردانتے ہیں۔

مسیحیت اور غناسطیت میں کچھ مماثل نہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کے بر عکس ہیں۔ مسیحیت ان کو رد کرتی ہے جبکہ غناسطیت اپنی فکر کو آفاقی ٹھہراتے ہیں۔ اگر ہم دونوں کے بنیادی عقائد کا تقابلی جائزہ لیں تو یہ فرق اور بھی واضح ہو جاتا ہے مثال کے طور پر ؛۔ نجات کے حوالے سے غناسطیتیوں کے یہ دعویٰ ہے کہ نجات صرف اس الہی علم سے حاصل ہوتی ہے جو فریب کی تاریکی سے آزاد کرتی ہو۔ ہر چند کہ غناسطی گریٹ یسوع مسیح اور اس کی اصل تعلیمات کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں غناسطیت کے پیروکار ہر موڑ پر مسیح کے برعکس عمل پیرا ہیں۔

یسوع نے کبھی بھی کسی مخصوص علم کو حاصل کرنے کا نہیں کہا۔ بلکہ اس نے تو کہا تھا کہ مجھے اگر بطور نجات دہندہ سمجھا جائے تو ممکن ہے نروان مل جائے بار دیگر شاید نہیں۔ ”کیونکہ تمھیں ایمان کے وسیلہ سے ہی نجات ملی ہے اور یہ تمھاری طرف نہیں۔ خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے“ ( افسایون باب 2 آیت 8 تا 9)

غناسطیت کی بنیاد سچائی کے پوشیدہ ہونے، ذہنی، داخلی و جذباتی نقطہ نظر پر مرکوز نظر آتی ہے۔ اور اس میں کچھ بھی نئی بات نہیں اس طرح کی باتیں ہمیں فلسفہ وجودیت میں بھی مل جاتی ہیں۔ یہ تصور درحقیقت بہت قدیم ہے جس میں شیطان نے خدا اور اس کے بولے گئے کلام پر سوال اٹھایا اور آدم اور حوا کو خدا کے کلام کو رد کرنے، اور جھوٹ کو قبول کرنے کے لئے قائل کیا۔ وہ آج بھی ایسے ہی کام کرتا ہے کیونکہ وہ مخالف ابلیس گرجنے والے ببر شیر کی طرح تلاش کرتا ہے کہ کس کو وہ پھاڑ کھائے۔

وہ آج بھی خدا پر سوال اٹھاتا ہے اور سادہ اور ناخواندہ لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے، جو خود کو اعلیٰ اور برتر ثابت کرنے کے لئے کسی مکاشفے کی تلاش میں ہوتے ہیں اور وہ ان لوگوں کو خوب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ میں نے غناسطیت کو مسیحیت کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی اور غلط فہمیوں کو بھی اپنے تئیں دور کرنے کی کوشش کی۔ غناسطیت کا سراغ اسلامی عقائد اور تصوف کی فکر میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جس نے وہاں غلط فکر کو پروان چڑھایا ہے اور بدعت و الحاد کو فلسفہ کی شکل دی ہوئی ہے۔ باقی، وما علینا الا البلاغ المبین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments