شب ظلمت سے طلوع آفتاب تک کی روداد


تحبب زندگی کی آغوش میں کیا وہ پل ہم پلہ ہو گیا ہے جس کی تلاش میں غم رسیدہ کا سماں چھٹ گیا ہو۔
کیا تمنا دلگی اب پختگی کے باب میں آتشین چنگیزیں نہیں بن گئی۔
حیات کے ایجابی و باطنی پہلوؤں سے اب کوئی توقع وابستگی کا دامن بچ گیا ہے۔
کیا عقل کے تسخر کے مناظر میں اب وقعت انسانیت بچی رہ گئی ہے۔
علم کی پیاس ہو یا دیوان جاوداں کیا کوئی راہگیر پردہ غیب سے اجاگر ہوا ہے۔
کیا وہ وقت نہیں ہے کہ اجالا، شمع کی شمعی سے خفا ہو کر عدم روشنی کا داعی بن چکا ہوا ہے۔

پیوست جانکاری اب ناکارہ مثل اجہل ہو گئی ہے۔ نظر باطن اب تشفی پیاس کے لیے مجہول باطل کا روداد ہو گئی ہے۔

کیا عالم تحسیس میں تشکیکت یا ارتیابیت یقین فیصل سے بالا نہیں ہو گئی؟

حیات اب گشت تمنا کے علاوہ کچھ جواب بہم پہنچا رہی ہے۔ جست زندگی کے متعلق کیا اب کوئی عقل انس کچھ قابل غور رہ گئی ہے۔

کیا اب امید پیغمبری کا ادعا قابل غور ہے کہ جو امید حیات کو دھچکا لگایا کرتا تھا اب وہ زندہ دل جوان پیدا کر پا رہا ہو۔ جواب حیات کے لیے مذہب، فلسفہ یا پیمانہ ارباب افکار کیا آنگن حقیقت بن سکتا ہے؟

ہستی کی نیستی کیا فنائے ہستی ہو سکتی ہے جو کہ ہستی کی ہی نشان موجودگی ہے۔ تو حیات کے رخ میں عدم حیات کی کوئی توجیح ممکن الوقوع ہو سکتی ہے؟

فلاسفہ، متکلم، متعلم، عقلا اور دانشور مزید اب کس کی جست میں ناداں ہیں کہ حقیقت کا در اب بے پردہ ہو چکا ہوا ہے۔ جنون عشق کی روداد اب اوراق ناظرہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔

اے مطلوب اب منتظر کس چیز کے ہو کہ نظارہ رنجش آویزاں ہے اس ہست کے پنہا میں تو اب یہ کیا تلاش غیر حقیقت کا متمنی رویہ نہیں ہے؟ لا سمجھ باتیں اب سمجھ کے دائرے سے جڑ چکی ہیں تو خبط العقل ہونا امر توجہ کیسے ہو گیا۔ خیر چھوڑنا ہی پڑے گا یہ وتیرہ جو کہ ازخود مجہول ہے۔

کیا وقت آ نہیں گیا کہ آبرو زندگی میں جلوہ ہستی کا تمسکن آمدید ہو رہا ہے۔ وہ افق کھل رہا ہے ایک نئے باب میں جہاں کئی جہان آباد تھے۔ کیا وہ پل دنیا میں آموجود نہیں تھا ہونا جب ہر سو ایک ہی آواز بلند ہونی تھی جس کا منتظر ہر زمانہ رہا ہے۔ کیا وہ صور جو نمائندہ فطرت لیے کھڑا ہے اب کیا وہ مزید منتظر ہے؟ نہیں۔ کیا باطل اب پنپ سکتا ہے۔ کیا تو ہر طرف دیکھ رہا ہے کیسے عقابوں، شیروں، رسولوں کی صفیں پیوست آرا ہیں۔

کیا وہ گھڑی نہیں آ گئی جب وہی لوگ جو اس وجود حقیقی کے مالک ہیں آ نہیں گئے۔ وہ دیکھو تمہیں عیسیٰ، موسی، کرشنا، محمد، اماموں کے لشکر نظر نہیں آرہے۔ وہ دیکھو مالک کائنات اب کرسی معلی پر جلوہ گر نہیں ہو گیا۔ کہاں کے منتظر ہو تم کون سے جہاں میں پرواز ٹھان بیٹھے ہو۔ چھوڑ دو وہ لباس دنیا جو تم نے نظر دھوکہ میں اوڑ رکھا ہے۔ اٹھو دیکھو کیا وہ روح ہر سو نظر نہیں آ رہی جو کبھی تم سے چھینی نہیں گئی۔

وہ دیکھو ٹولیاں لوگوں کی جو کہتے تھے ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے۔ حق کہاں ہے تمہارے پاس جو تم نے گھڑ رکھا ہے۔ لو دیکھو اپنی ذات کو وہ جو بلندیوں میں، ہر طرف مسکن لالہ ہے۔ کیا کوئی ہے جو حق کے سامنے پنپ پا رہا ہو۔ کہاں ہیں تمہاری سلطنتیں، بادشاہتیں۔ جس کی تمنا تم نے دل میں تھما رکھی ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے تمہارے پاس اب تو۔

دیکھو محمد کو، عیسی کو، موسی کو وہ جب آئے تھے تو کیا وہ بھکاری، محتاج یا باطل کے سامنے جھک جانے والے تھے یا وہ تو کائنات کے حقیقی مالک و بادشاہ تھے جنہوں نے آ کر ہر راہ پر بند ڈال دیا تھا۔ سلطنتیں ان کے سامنے ہچکولے کھا گئیں۔

تم وہ بہتے سمندر کی موجوں کی مانند تھے جو چلتی یا اٹھتی تو ایسی ہیں جیسے طوفان برپا کر دینا ہو مگر سمندر کی غوطہ زنی میں لطف سکونیت کا نظارہ تم سے اوجھل ہی رہتا ہے۔ ابراہیم کو ہی دیکھ لو کیا اس نے وقت کے نامور بادشاہ کو بے بس و مجبور نہیں تھا کر دیا۔ تم ابھی کون سی غفلت میں ڈوبے ہو۔ تمہارا راستہ تو بے نشان تھا، تم کبھی جھکتے ہی نہیں تھے مگر اب ان نام نہاد بادشاہوں، پنڈتوں، پادریوں کو تم نے اپنا آقا وابا بنا رکھا ہوا ہے۔ لوگ انتظار میں تھے کہ وہ وقت کب آئے گا کہ جب ہم سرخرو ذات ہوں گے۔ کیا اب دیکھ نہیں رہے خود اپنی آنکھوں سے مگر کیا اب یقین کر رہے ہیں نا تو بالکل ایسے ہی تم جان لو تم پہلے غفلت و نیند میں تھے۔ یہ تم خودی کو ہی دیکھ رہے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments