عمران خان دوراہے پر


سیاست داؤ پیچ کا کھیل ہے جو حکمت اور تدبر کا متقاضی ہے۔ وقت، نبض اور مزاج شناسی اس کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ہار کے جیتنے اور جیت کے ہارنے کا حوصلہ مانگتی ہے۔ امکانات کو دیکھنے اور پیدا کرنے کی صلاحیت اس کا اہم وصف ہے۔ لچک، حوصلہ اور ظرف اس کی بنیادیں ہیں۔ یہاں مستقل دوست اور مستقل دشمن نہیں ہوتے۔ یہاں دوسروں کو عبرت بناتے بناتے خود عبرت بن جانا قطعاً انوکھی بات نہیں ہے۔ یہاں ناکامیاں کامیابی کا زینہ بنتی ہیں اور کامیابیاں ناکامی کی بنیاد۔ حتمی کامیابی کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے۔

پاکستانی سیاست میں ”ڈوبنے“ اور بار بار ”ابھرنے“ کی بھی مثالیں بھی موجود ہیں اور عین اپنے دوپہر پر چمکتے سورج کے غروب ہو جاننے کا امکان بھی واضح ہے۔ یہاں بارہا سچائی اور جھوٹ کی تفریق مشکل ہو جاتی ہے۔ جھوٹ بک جاتا ہے سچائی کا خریدار نہیں ملتا۔ انصاف اور انتقام میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور غداری اور حب الوطنی بھی باہم اپنے لبادے تبدیل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ دوست ہی سب سے بڑا دشمن ثابت ہو سکتا ہے اور دشمن بھی دوست بن سکتا ہے۔ یہاں موقع، حکمت، تدبر، تاریخ اور روایت بہترین دوست اور ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔

تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے، مضبوط لیڈرشپ اور جاں نثار فالوونگ رکھتی ہے۔ سٹریٹ پاور بھی ہے اور نوجوان جذبات بھی۔ عمران خان صاحب اپنی قومی موجودگی، لیڈر شپ اور سیاسی طاقت کو ثابت کر کے بھی دکھا چکے ہیں۔ اور بلاشبہ وہ اس وقت بھی اپنی مقبولیت کی معراج پر ہیں۔ خان صاحب مگر اس مقبولیت کی طاقت کو بادی النظر میں قانون اور آئین سے بالا سمجھ کر ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں۔ ریاست اور اداروں سے ٹکراؤ وہ اندھا راستہ ہے جس کا دوسرا سرا سیاسی قبرستان کی طرف کھلتا ہے۔

خان صاحب کو اپنی لیڈرشپ اور مقبولیت کے اس دستیاب ہتھیار میں حکمت، تدبر، حوصلہ، روایت اور عدم تشدد کا بارود بھرنا ہو گا۔ طاقت کو سیاست کی کنجی سمجھنے سے پرہیز کرنا ہو گا۔ محض عوامی طاقت کے استعمال سے پاکستانی ریاست نہ ہی پہلے دب سکی ہے نہ آگے دبتی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے خود ہی اپنے دور حکومت میں قوم کو یقین محکم عطا کیا تھا کہ ریاست جتھوں کے سامنے اور غیر جمہوری قوتوں کے سامنے متزلزل نہیں ہو گی۔ اس سے قبل بھی ایم کیو ایم، طالبان اور کچھ دیگر مذہبی قوتیں اس راستے کو آزما کر کامیابی سے ناکام ہو چکی ہیں۔

ہماری مروجہ سیاست میں کوئی ماسٹر چابی نہیں جس سے تمام تالے کھل سکتے ہوں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ایک چابی سے کوئی تالا دو دفعہ کھل جائے۔ البتہ اداروں سے ٹکراؤ وہ مصدقہ کنجی ہے جو سیاسی راہداریوں کے تمام راستوں کو تالا لگا سکتی ہے۔ اس وقت عمران خان صاحب کے لئے بھی ایک ایک کر کے تمام تالے بند ہوتے ضرور دکھائی دیتے ہیں مگر ابھی وہ سیاسی طور پر مکمل طور پر ان ہیں۔ ان کے پاس آئین، پارلیمان، عدلیہ، اور اداروں سے تعاون کرنے اور تعاون لینے کے تمام رستے موجود ہیں تاہم بظاہر یہ رعایت زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی۔

خان صاحب کو چاہیے کہ وہ عوامی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی، جمہوری اور عدالتی رستہ اپنائیں اور آئین، قانون اور روایت کے تابع اپنی قوت کا اظہار کریں نہ کہ اس سے متصادم رویہ اختیار کریں۔ بصورت دیگر وہ ان عوامل سے خود کو بالا سمجھ کر کسی ایسی صورتحال سے ملک، عوام اور خصوصاً اپنے نوجوان فالوورز کو دوچار کر سکتے ہیں جو نہ صرف ان کی سیاست کو ختم کر سکتی ہے بلکہ ان کے فینز کو بھی مایوس کر سکتی ہے۔ اور یہ امر ان کی دو دہائیوں پر مشتمل جدوجہد کی خدانخواستہ رائیگانی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ وہ عوامی طاقت کی دستیابی کو اپنی لیڈرشپ کی آزمائش سمجھیں نہ کہ اپنی ملکیت۔ اس آزمائش سے کماحقہ عہدہ برا ہو کر ہی وہ بطور لیڈر تاریخ میں اپنا وقار بحال رکھ سکتے ہیں۔ ہمیشہ سے تاریخ ساز عمران خان کو اپنی سیاست کے اس اہم دوراہے پر اپنا رستہ نہایت عقلمندی سے چننا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments