سیلاب: عالمی فلاحی اداروں پر پابندیوں کی سزا متاثرین برداشت کریں


پاکستان میں یہ تقریباً یہ طے ہے کہ سرکاری طور پر تعمیر ہونے والے ڈیمز، بند، پل، اور ہائی وے سڑکیں پاک آرمی کے ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے ) ہی تعمیر کریں گے۔ اس طرح کسی نجی تعمیراتی ادارہ کو اتنے بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے نہیں مل سکتے۔ حالیہ تباہ کن مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں بلوچستان، ڈیرہ غازی خان اور اپر سندھ کے علاقوں میں تعمیر کردہ پل، ہائی ویزہ اور ڈیمز پانی کے پہلے ریلے کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

پھر جو بعد میں ریلے آتے گئے ان کے نتیجے میں انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ مکانات تباہ ہوئے اور مال و مویشی ختم ہو گئے۔ عورتوں، بچوں کی ہلاکتوں اور مکانات سمیت مال مویشیوں کے نقصانات کا سبب بھی جلد ٹوٹ جانے والے ڈیمز اور بند تھے۔ لیکن سیکیورٹی کی نزاکتوں کے باعث ہم ان پر مزید تبصرہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے بھی نہیں کر سکتے کہ علی الاعلان کہا جاتا ہے کہ احتساب کا ہمارا اپنا انتظام ہے۔ چلیں جہاں 75 سال انتظار کیا ہے اور بھی کر لیں گے۔

مگر سب سے زیادہ بے بسی اس وقت نظر آتی ہے جب برق رفتاری سے سیلاب یا مختلف آفات کے متاثرین کی مدد کرنے والی فورس کہیں نظر نہیں آتی کیونکہ ایسی فورس ملک دشمن اور امریکی سی آئی اے کی ایجنٹ قرار دیدی گئی ہے۔ ہر نوعیت کی آفات کے دوران دیکھا جاسکتا تھا کہ ٹرکوں، بڑی بڑی ویگنوں میں خیمے پکڑے ہوئے ادویات، خشک خوراک کیڈبے اور پانی کی بوتلیں لئے ہوئے مرد و خواتین رضاکار بھاگتے مدد کرتے ہوئے پائے جاتے تھے، کئی زندگیاں محفوظ کی گئی تھیں۔ خواتین خاص کر لیڈی ڈاکٹرز اپنی پرواہ کیے دن رات مصروف رہتی تھیں کہیں آنکھوں کے آئی کیمپس، کہیں سرجری کی کیمپ اور بیشمار اور اسی نوعیت کی سرگرمیاں شہری نوجوانوں کو پر جوش بنائے رکھتی تھیں۔

جن عالمی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تھی اس میں Save the Children نام کیا تنظیم سر فہرست تھی جس پر محض اس وجہ سے پابندی عائد کی گئی کہ اس پر الزام تھا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے پولیو پروگرام شروع کرا کر اسامہ بن لادن کی مخبری کی جو مئی 2011 کو ایک امریکی حملے میں ایبٹ آباد کے قریب اپنی روپوشی کے مکان میں ہلاک ہوا تھا۔ اس نے پاکستان میں بچوں کو انتہائی مہلک بیماریوں سے بچایا تھا جن میں خاص کر پولیو سے بچاؤ کی ویکسین وغیرہ۔ اس تنظیم پر امریکی سی آئی اے کی مخبری کا الزام لگا کر بند کر دیا گیا، سوچیں اگر یہ تنظیم ہوتی تو آج بے شمار بچے اور خواتین محفوظ رہتے۔

چوہدری نثار اور عمران خان ایک ہی ایک ساتھ پڑھنے اور ساتھ کھیلنے کے سبب ایک ہی سوچ کے مالک ہیں اسی سبب عمران نے اپنے دوست کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے 38 عالمی امدادی اور فلاحی تنظیموں پر 2020 میں پابندی لگادی۔ انہیں سب پتہ تھا کہ پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور 22 کروڑ کی آبادی میں پانچ کروڑ کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے اور انٹرنیشنل این جی اوز تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو انسانی فلاح و بہبود اور ترقیاتی کاموں میں تعاون کرتی ہیں۔

یہ تنظیمیں ہمیشہ مقامی این جی اوز، سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی تھیں اب ہزاروں رضاکار جہاں بے روزگار ہو گئے وہاں عام لوگوں تک صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ پورے ملک کو پتہ ہے کہ بلوچستان، سندھ اور سرائیکی وسیع میں سیلاب اور بارشوں کے متاثرین کو قطعی امداد نہیں مل رہی ہے، صوبائی وزرا جاکر متاثرین کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں انہیں دینے کو کچھ نہیں۔ پنجاب سیلابوں سے متاثر نہیں ہوا تو فوج بھی خاموش اور شاید دوسری وجہ عالمی امداد نہیں پہنچی اس لئے دلچسپی کی ضرورت بھی نہیں۔ ورنہ اگر امداد کا آسرا ہو تو گندے نالوں میں کود جاتے ہیں۔

جن 38 عالمی امدادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے ان تمام کے نام لکھنا مشکل ہے کیونکہ وہ سب انگلش میں لکھنا پڑے گا۔ تاہم یہ تنظیمیں صوبائی حکومتوں کو تعلیم سے لے کر صحت سے سمیت دیگر شعبوں میں تعاون فراہم کرتے تھے۔ مگر ان پر پابندیوں کے باعث اب صوبائی حکومتیں فلاحی و امدادی کاموں سے بالکل آزاد ہو چکی ہیں۔ اوپر سے وفاقی حکومت ایک ایک ڈالر کا قرضہ لینے کے لئے نجانے کہاں کہاں ہاتھ پھیلائے گھوم رہی ہیں۔ ان سیلابوں کی تباہ کاریاں اور قرضوں کا بوجھ ملک میں بہت بڑے بحران کو جنم دیں گے اور ابھی سے لوگوں نے سرکاری اداروں کے دفاتر پر حملے شروع کر دیے۔ سندھ میں کوئی ضلع نہیں بچا جہاں سرکاری افسران اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں جبکہ منتخب نمائندے بھاگ کر کراچی و اسلام آباد میں پناہ لے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments