بنوں میں خواتین کا پارک بند۔ طالبان کو کھلی چھٹی


افغانستان میں طالبان کے قبضہ کو ایک سال ہو گیا۔ ایک سال سے افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند پڑے ہیں۔ یونیورسٹی کی تعلیم تو شاید اب افغان لڑکیوں کے لئے خواب و خیال ہو چکی ہے۔ کابل پر قبضہ کرتے ہی طالبان نے یہ فرمان جاری کیا کہ وہ خواتین جو کہ سرکاری ملازمت کر رہی تھیں گھروں میں رہیں۔ انہیں کام سے روک دیا گیا۔ افغانستان میں خواتین کے امور کی ایک وزارت کام کر رہی تھی۔ یہ بھی طبع نازک پر گراں گزرا۔

اس کی جگہ طالبان نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک وزارت قائم کر دی۔ اس وزارت نے حکم جاری کیا کہ خواتین اپنے مرد رشتہ داروں کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ وزارت خزانہ میں جو خواتین کام کر رہی تھیں کہ ان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی جگہ اپنے مرد رشتہ داروں کو کام پر بھجوائیں۔ اس سے طالبان کی معاملہ فہمی اور زیرک طبیعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اگر کسی خاتون کا خاوند دانتوں کا ڈاکٹر ہے تو کیا وہ اس خاتون کی جگہ وزارت خزانہ میں کام شروع کر دے گا۔

پہلے افغانستان میں 300 خواتین بطور جج کام کر رہی تھیں، اب بطور جج کیا کام کرنا تھا ان میں سے 244 ملک چھوڑ چکی ہیں۔ باقی گھر بیٹھ کر حالات کا ماتم کر رہی ہیں۔ 16 اگست 2021 کو عمران خان صاحب نے بیان دیا تھا کہ افغانستان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ کیا اسی کا نام آزادی ہے کہ ملک کی نصف آبادی پر تعلیم کے دروازے بھی بند کر دیے جائیں۔ اور وہ گھر بیٹھ کر مردوں کو بد دعائیں دینے کا فریضہ سرانجام دیں۔

اس سال ورلڈ اکنامک فورم نے 146 ممالک کا تجزیہ کر کے یہ درجہ بندی شائع کی کہ کس ملک میں مختلف لحاظ سے مردوں اور عورتوں کا فرق زیادہ ہے۔ یعنی کس ملک میں اس ملک کے مردوں کی نسبت عورتوں کی حالت خراب ہے اور کس ملک میں بہتر ہے۔ اس لحاظ سے 146 ممالک میں افغانستان کا نمبر 146 تھا۔ لیکن فکر نہ کریں پاکستان کے حالات ایسے بھی نہیں کہ ہم اس معاملہ میں کوئی نمایاں مقام نہ حاصل کر سکیں۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 145 ہے۔ یعنی اگر افغانستان نہ ہوتا تو پاکستان اس لحاظ سے دنیا کا بد ترین ملک ہوتا۔

جب یہ جائزہ لیا گیا کہ وہ کون سے ممالک ہیں جن میں سیکنڈری سکول میں داخلہ لینے کے تناسب میں لڑکیوں اور لڑکوں کا فرق دس فیصد سے بھی زیادہ تھا۔ تو پوری دنیا میں صرف 16 ایسے ممالک تھے۔ ان میں سے 11 افریقی ممالک تھے اور دو جنوبی ایشیا کے ممالک تھے یعنی افغانستان اور پاکستان۔ جب یہ جائزہ لیا گیا کہ اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور مواقع کے اعتبار سے خواتین کے حالات کیسے ہیں؟ تو اس اعتبار سے ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو بد ترین ممالک تھے۔ خواتین کی تعلیم کے اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن 135 تھی اور افغانستان حسب دستور آخری پوزیشن پر تھا۔

پھر یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف ممالک میں صحت اور متوقع عمر کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں کا فرق کتنا ہے تو اس لحاظ سے بھارت دنیا کا بد ترین ملک تھا۔ اور 146 ممالک میں پاکستان کی پوزیشن 143 تھی۔ افغانستان 140 نمبر پر تھا۔ سیاست میں خواتین کے اثر و رسوخ کے اعتبار سے پاکستان کے حالات کچھ بہتر تھے اور پاکستان 95 نمبر پر تھا۔

جب دنیا کے مختلف خطوں کا جائزہ لیا گیا کہ کس خطے کی عورتیں صحت، تعلیم، اقتصادی ترقی، آمد اور سیاسی اثر میں اپنے ملک کے مردوں سے زیادہ پسماندہ ہیں تو اس لحاظ سے جنوبی ایشیا دنیا کا بد ترین خطہ تھا۔ لیکن جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش نے دوسرے ممالک کے لحاظ سے بہتر کارکردگی دکھائی تھی۔

اپنے قبضہ کے آغاز میں طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس وعدے کا بھی وہی حشر ہوا جو کہ طالبان کے اکثر وعدوں اور معاہدوں کا ہوتا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ پاکستان اس جارحیت کو روکنے میں کامیاب ہوتا ہے کہ نہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان سے نظریات کی درآمد بغیر کسی کسٹم ڈیوٹی کے بہت کامیابی سے کی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ 26 اگست کو گندھارا پر شائع ہونے والی اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنوں شہر میں خواتین کے لئے ایک پارک بنایا گیا۔ اس پارک کا نام جناح فیملی پارک تھا۔ اس میں بارہ سال سے زیادہ عمر کا کوئی لڑکا بھی قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ حفاظت کے لئے ارد گرد اونچی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ کچھ خاردار تاروں کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ یوم آزادی کے موقع پر بنوں کی بہت سی برقع پوش خواتین نے اس پارک کا رخ کیا۔

بس پھر کیا تھا علماء کی قیادت میں سڑکوں پر شدید احتجاج کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ ہزاروں لوگوں نے غیرت قومی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس احتجاج میں شرکت کی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس پارک کے ذریعہ فحاشی پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ بات بھی ایک معما ہے کہ جب اس پارک کے اندر کوئی مرد نہیں جا سکتا تھا تو احتجاج کرنے والے مردوں نے کس طرح اندر جھانک کر دیکھ لیا کہ یہ پارک بے حیائی اور فحاشی کا مرکز بنا ہوا ہے۔

ویسے تو اس شہر میں جمیعت العلماء اسلام کے میئر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ پارک آرمی کنٹونمنٹ میں بنا یا گیا تھا۔ بہرحال فوری طور پر تیس سے زائد علماء کی ایک کمیٹی قائم کی گئی تاکہ اس مغربی سازش کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اور جب پارک کے منتظمین نے ہزاروں لوگوں کا یہ احتجاج دیکھا تو حسب توقع گھٹنے ٹیک دیے۔ اور 23 اگست کو یہ پارک بند کر دیا گیا۔ کئی خواتین نے اس پر احتجاج کیا مگر بے سود۔ بعض مقامی احباب کا یہ کہنا ہے کہ اب پاکستان میں وہی ماحول پیدا کیا جا رہا ہے جو کہ طالبان نے افغانستان میں قائم کیا ہے۔ اور ہم یہ خبریں پڑھ چکے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو اب خیبر پختون خواہ میں واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

جب پاکستان کی حکومت نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے تو ان کا مطالبہ تھا کہ پہلے ہمارے سو سے زائد دہشت گرد رہا کرو پھر ہم از راہ شفقت مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔ پاکستان کی حکومت نے اس مطالبہ کے پیش نظر کئی دہشت گرد رہا کر دیے تھے۔ لیکن اب معلوم ہو تا ہے کہ صرف دہشت گرد ہی رہا نہیں کیے گئے تھے ان کے نظریات کو بھی کھلی چھٹی دے دی گئی تھی۔ اس پس منظر میں دنیا ہمیں تنگ نظر نہیں سمجھے گی تو اور کیا سمجھے گی؟ بہر حال کوششیں جاری ہیں۔ اب ہمارے راستہ میں صرف افغانستان کی آخری پوزیشن حائل ہے۔ اگلی رپورٹ میں پاکستان کا نام آخری نمبر پر بھی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments