کیا سیلاب کی تباہ کاریاں عذاب خداوندی ہے یا مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے؟


کیا سیلاب صرف پاکستان میں آتے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے نہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں سیلاب اور قدرتی آفات آتی ہیں معاشی اور جانی نقصان بھی بے پناہ ہوتا ہے۔ لیکن دنیا ان آفات کے سے قبل اور بعد ان وجوہات کو ضرور تلاش کرتی اور ان کے سد باب کے لئے موثر اقدامات کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یا دوسرے متعلقہ ادارے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لہذا ان کی روک تھام پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔

محکمہ موسمیات نے حکومت کو وقت سے پہلے خبردار کیا کہ اس سال مون سون کی بارشیں روٹین سے کافی زیادہ ہوں گی ۔ مگر حکومت نے اس کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کچھ جدید ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث محکمہ موسمیات بھی زیادہ درست پیشین گوئی نہیں کرتا۔ ہر سال عموماً مون سون کے تین سے چار سائیکل ہوتے ہیں لیکن اس سال آٹھ سائیکل ہوچکے ہیں اور آگے ستمبر میں مزید کی پیشین گوئی ہے۔ پاکستان میں ہر سال عموماً 48 ملی میٹر بارش ہوتی ہے لیکن اس سال اگست تک 186.8 ملی میٹر بارشیں ہو چکی ہیں۔

مطلب اس سال روٹین سے ٪ 241 زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ صرف سندھ میں پچھلے سال کی نسبت ٪ 784 زیادہ جبکہ بلوچستان میں ٪ 496 زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ کلائمیٹ چینج کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مطلب گلیشیر بھی اس سال پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ پگھلے جس وجہ سے دریاؤں میں طغیانی کی شرح بھی بڑھ گئی مزید انڈیا تو پھر حسب سابق پانی چھوڑتا ہے لیکن وہ بہت معمولی مقدار میں ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے ان تمام معاملات سے نبٹنے کے لئے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

سیلاب سے قبل نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور دوسرے حکومتی اداروں کی کارکردگی صفر تھی۔ مثال کے طور پر کسی بھی علاقے کو ریڈ زون یا بلڈنگ کو ہائی رسک قرار نہیں دیا گیا۔ وقت سے پہلے کوئی بھی علاقہ خالی نہیں کروایا گیا۔ لوگوں کو اطلاع نہیں دی۔ دریاؤں کے بندوں اور پشتوں پر کوئی توجہ نہ دی گئی، ان کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا گیا۔ حکومت نقل مکانی کے اقدامات تب کرتی اگر حکومت کو اس تباہی کا پہلے سے کچھ اندازہ ہوتا۔ لہذا شدید ترین سیلاب کے باوجود حکومت نے لوگوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔

اب تک کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 306، بلوچستان 250، گلگت بلتستان 9، کے پی 185 اور پنجاب میں 165 اموات ہو چکی ہیں۔ جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں تین کروڑ افراد بوجہ سیلاب چھت، خوراک اور ریسکیو کے مسائل کا شکار ہیں۔ رمک سے لے کر کشمور، جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں سے لے کر شہداد کوٹ سندھ، بلوچستان، کالام سوات اور وہ تمام علاقے جہاں اس وقت بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے پھنسے ہوئے لوگ روٹی کے نوالے کو ترس رہے ہیں۔

لیکن حکومت ان کو ریسکیو کرنے کے کوئی بہتر انتظامات نہیں کر پا رہی ہے۔ دیہی علاقوں سے ہٹ کے اس وقت بڑے بڑے شہر سیلاب کی نظر ہو رہے ہیں کیوں؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب شہروں اور دیہی علاقوں کی آبی گزرگاہوں کے راستوں پر سوسائٹیاں اور کالونیاں بنائی جاتیں ہیں، شمالی علاقے جات میں دریاؤں کے رستے میں ہوٹل بنا دیے جاتے ہیں۔ تو پھر تباہی سے کون بچا سکتا ہے۔ حکومت ان کے روک تھام کے لیے کچھ نہیں کرتی بلکہ حکومتی وزراء اور اداروں کی ملی بھگت سے یہ کام سرانجام دیے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہنی مون ہوٹل کو دریا کے اس قدر اندر بنانے کی اجازت کیسے اور کیوں ملی؟ درخت لگانے کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے جو سیلاب کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر دفعہ سیلاب کے وقت اور بعد میں بڑے بڑے ڈیموں جیسے کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیموں کا رونا رویا جاتا ہے لیکن کیا بڑے ڈیم سیلاب کی تباہ کاریوں کو روک سکتے ہیں؟ تو میرے نزدیک نہیں اگر بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیمز نہ بنائے جائیں تو بڑے ڈیم سیلاب کے وقت نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

جیسے دریائے نیلم کے مسلسل بڑھنے کی وجہ سے میرپور منگلا ڈیم کو نقصان کا خدشہ ہے۔ ڈیم کی توڑ پھوڑ سے بچنے کے لیے ڈیم کو کھولا جا رہا ہے۔ لہذا پنجاب کے نشیبی علاقے  جہلم، کھاریاں، گجر خان، سرگودھا، جھنگ، لیہ اور دیگر بے شمار اضلاع زیر آب آنے کا خدشہ ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے، بچنے کے لیے بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے، لوگوں کو ریسکیو کرنے، خوراک و ادویات پہنچانے، نقل مکانی کے موثر اقدامات اور رہائش گاہیں فراہم کرنے کے لیے 72 بلین روپے کی فوری ضرورت ہے۔

جب کہ این جی اوز پر پچھلے کئی سالوں سے پابندی عائد ہے۔ بیرونی امداد اس دفعہ ملنے کے چانسز صفر ہیں۔ چونکہ دنیا یوکرائن کی جنگ کے بعد پاکستان کے ساتھ کوئی اچھے تعلقات نہیں رکھتی۔ مرکز اور صوبوں میں حکومت الگ الگ پارٹیوں کی ہیں۔ لہذا حکومت کے پاس اس وقت ان معاملات سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت سیاست سیاست کھیل رہی ہیں۔ سیلاب زدگان اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد عوام کے رحم و کرم پر ہیں۔

یہاں پر پاکستانی عوام کا جذبہ قابل ستائش ہے جو بڑھ چڑھ کر سیلاب زدگان کے لئے امدادی کیمپ لگا رہے ہیں۔ سیلاب کے بعد کے نقصانات اور مسائل حکومت کے لیے الگ چیلنجز ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 2010 کے سیلاب میں دس بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ سیلابی ریلا گزر جانے کے بعد زراعت، انفراسٹرکچر تباہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ بیماری، خوراک، بے گھر لوگوں کی آبادکاری، مہنگائی، گورننس جیسے مسائل سیلاب زدہ علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

دیہی علاقوں میں زراعت اور مویشی عوام کے روز گار کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ زراعت اور مویشی دونوں ہی سیلاب کی نذر ہو چکے ہوتے ہیں۔ بدحال مفلوج حال عوام کی آبادکاری کے لیے اربوں ڈالر کا تخمینہ ہوتا ہے تاکہ ان کو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹایا جا سکے۔ ابھی دیکھنا ہے کہ حکومت مابعد سیلاب کے کیا اپنی ذمہ داری پوری کر پائے گی؟ یہاں میں کچھ سوالات چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کیا اس قدر جانی اور معاشی نقصان کے بعد آنے والے وقت کے لئے حکومت کچھ سنجیدہ اقدامات کرے گی؟

کیا آبی گزرگاہوں اور دریاؤں کے کنارے بلڈنگ بنانے والے مافیاز کا کوئی سد باب کرے گی؟ کیا پانی کی سٹوریج کے لئے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے پر توجہ دی جائے گی؟ کیا جن اداروں اور افراد کی نا اہلی اور غفلت کے باعث تباہی زیادہ ہوئی ان کو کبھی کٹہرے میں لایا جائے گا؟ یاد رکھیے گا کہ یہ بے وقت بارشیں اور قدرتی آفات کوئی عذاب الہی نہیں ہوتیں۔ یہ صرف پاکستان کی حد تک حکومت، امراء اور حکومتی تنخواہ دار علماء کی طرف سے غریب عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ یہ عذاب الہی ہے۔ تاکہ عوام حکومت سے یہ سوال نہ کریں کہ حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے۔ دنیا قدرتی آفات سیلاب پر قبل از وقت قابو پانے کے لیے اقدامات کرتی ہے تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔ ہم قبل از وقت کرتے کچھ نہیں آفت کے وقت صرف رونا روتے ہیں اور بعد میں بھول جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments