مقامی حکمرانی کا نظام۔ غیر معمولی اصلاحات


پاکستان نے اگر واقعی حقیقی معنوں میں سیاست، جمہوریت، شفافیت، جوابدہی، قانون کی حکمرانی سمیت عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کے موثر نظام سے خود کو جوڑنا ہے تو پہلی اور بنیادی ترجیح ایک ”مضبوط خود مختار اور مربوط مقامی حکومتوں کا نظام“ ہونا چاہیے۔ دنیا میں حکمرانی کو مربوط اور موثر بنانے کے لیے جو بھی تجربات کیے جا رہے ہیں ان میں ایک بڑا تجربہ ”سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات“ کی تقسیم اور مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت پر مبنی نظام ہے۔

اسی اصول اور فریم ورک کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے نظام میں مقامی حکومتوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارا ریاستی و حکمرانی کا تجربہ دنیا سے سیکھنے والا کم اور زیادہ سے زیادہ ماضی کی غلطیوں کو ہی دہرانا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم 18 ویں ترمیم کے باوجود جس کی بنیاد پر عدم مرکزیت پر مبنی نظام کی تھی، مگر ہم مرکزیت کے نظام پر کھڑے ہیں۔

یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم نے مقامی حکمرانی کے نظام میں تواتر سے جو بھی تجربے کیے ہیں ان کا مقصد مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا کم اور زیادہ سے زیادہ صوبائی حکومتوں کا مقامی نظام حکومت پر کنٹرول ہے۔ اول تو مقامی نظام کی تشکیل نو کو ہی ممکن نہیں بنایا جاتا اور تاخیری حربے ہی اختیار کیے جاتے ہیں، دوئم اگر مقامی نظام کی کڑوی گولی عدالتوں کے دباؤ پر کھانی پڑی تو انتخابات کراو کر نظام کو کمزور، لاچار اور بے بس بنا کر اختیارات کو اپنی ہی حد تک کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہم مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل نو کو یقینی بنانے کے لیے وہی فرسودہ طرز کے خیالات، روایتی حکمرانی کی سوچ اور وسائل پر اپنا کنٹرول کرنے کی سوچ اور فکر سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں حکمرانی کے نظام پر شدید تنقید موجود ہے۔ پاکستان میں حکمران طبقہ جتنی مرضی نیک نیتی پیش کرے یا خود کو حکمرانی کے لیے مضبوط ارادوں کو ظاہر کرے مگر بنیادی غلطی مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی ہے جو مجموعی طور پر ملک میں حکمرانی کے نظام پر لوگوں میں بداعتمادی اور لاتعلقی کی کیفیت کو پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

اس وقت پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کے تناظر میں مختلف سیاسی، انتظامی اور قانونی فریقین کے درمیان ایک سنجیدہ مکالمہ کو آگے بڑھانا ہو گا۔ جب حکمرانی کا نظام غیر معمولی حالات کا شکار ہے تو اس کے لیے جو بھی پالیسی یا حکمت عملی اختیار کی جائے گی وہ بھی غیر معمولی ہی ہونی چاہیے۔ ہمیں بارہ بنیادی اصولوں پر اتفاق کرنا ہو گا۔ اول آئین کی شق 140۔ Aکے ساتھ 140۔ B اور 140۔ Cکو بھی متعارف کروانا ہو گا۔ جس میں 140۔

Bمیں یہ واضح ہونا چاہیے کہ مقامی حکومتوں کی مدت کے ختم ہونے یا وقت سے پہلے اس نظام کے ختم ہونے پر 120 دن کے اندر اندر صوبائی حکومتیں مقامی انتخابات کر اونے کی پابند ہوں گی۔ اسی طرح 140۔ Cمیں یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ اگر کوئی صوبائی حکومت اپنی مقررہ مدت میں مقامی انتخابات سے انکاری کرتی ہے تو اس کو صوبائی سطح پر موجود فنانس کمیشن میں سے وسائل کی کٹوتی کا سامنا کرنا ہو گا۔ 140۔ Aجو سیاسی، انتظامی اور مالی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اسی کو بنیاد بنا کر صوبائی نظام کی تشکیل کو یقینی بنانا ہو گا اور اس نظام کو ریاستی نظام میں تیسری حکومت یعنی وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

دوئم اگرچہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی موضوع ہے۔ لیکن اس میں وفاق کا کوئی کردار نہیں اور کوئی بھی صوبائی حکومت اگر مقامی انتخابات سے انکاری ہے یا نظام کو مفلوج بناتی ہے تو وفاق کچھ نہیں کر سکتا۔ یہ موضوع صوبائی ہی رہے مگر اس میں وفاق کا ایک بنیادی فریم ورک صوبوں کے لیے موجود ہونا چاہیے۔ تاکہ مقامی حکومتوں کے نظام میں تسلسل، اہم آہنگی اور جوابدہی سمیت مختلف پہلووں کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاق کو دیکھنا ہو گا کہ صوبائی حکومتیں آئین کی شق 140۔

A اور 7 اور 32 کے تحت صوبائی نظام کی تشکیل کو ممکن بنا رہی ہیں یا نہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ کسی نہ کسی صورت میں وفاق کو جوابدہ ہیں۔ سوئم مقامی نظام کے تسلسل کے لیے سب یعنی وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام کی مدت چار یا پانچ برس ہونی چاہیے۔ ان کے انتخابات ایک ساتھ بھی ہوسکتے ہیں یا نئی صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد 120 دن میں لازمی ہونے چاہیے تاکہ سب نظام ایک ہی تسلسل سے آگے بڑھ سکیں۔

چہارم جب تک ملک میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان سمیت صوبائی حکومتوں کا فریم ورک واضح نہیں ہو گا بہتری کی گنجائش موجود نہیں۔ اس وقت صوبائی حکومتیں وسائل پر اپنی اجارہ داری کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کی مخالف ہیں اور ترقیاتی بجٹ پر وہ محض اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کی تقسیم اصولی طور پر مقامی حکومتوں کے نظام سے ہی جڑی ہونی چاہیے۔ پنجم مقامی حکومتوں کے نظام میں صوبوں سے اضلاع تک وسائل کی تقسیم کا فارمولہ واضح ہونا چاہیے اور وسائل کی واضح و شفاف تقسیم آبادی، جغرافیہ اور محرومی کی سیاست سے جڑا ہونا چاہیے اور اس کی تصویر واضح طور پر ہمیں صوبائی فنا نس کمیشن اور صوبائی بجٹ میں نظر آنا چاہیے۔

اسی طرح صوبائی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے صوبائی ترقیاتی بجٹ کا تیس فیصد بجٹ مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت خرچ کرنے کو لازمی قرار دیا جائے۔ ششم ملک میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بارے میں یہ ہی واضح پالیسی ہونی چاہیے کہ جنرل اور مخصوص نشستوں سمیت تمام پر براہ راست انتخابی طریقہ کار ہونا چاہیے اور ایک ہی پینل پرایک ہی ووٹ کی بنیاد پر یہ عملاً انتخاب ہو اور انتخابات کی بنیاد جماعتی بنیاد پر ہی ہونی چاہیے۔

ہفتم عورتوں کی نمائندگی کو 33 فیصد براہ راست طریقہ انتخاب سے مکمل کرنا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ براہ راست انتخاب میں کم ازکم پانچ فیصد عورتوں کو پارٹی ٹکٹ بھی جاری کریں۔ ہشتم اسی طرح صوبائی سطح پر صوبائی اور فنانس لوکل گورنمنٹ کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کو براہ راست مضبوط بنایا جائے اور یہ صوبائی سطح پر مکمل طور پر اس نظام کی جوابدہی میں اپنا موثر کردار ادا کر سکیں۔ نہم کوئی بھی صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کے مقابلے میں صوبہ میں کوئی متبادل نظام کی تشکیل نہیں کرے گی اور ایسا کرنا آئینی طور پر غیر قانونی ہو گا۔

کسی بھی قسم کی اتھارٹی یا کمپنیاں بنانا اور صوبائی حکومت کا خود سے اس نظام کو کنٹرول کرنا آئین کی خلاف ورزی ہوگی، دہم صوبائی سطح پر بڑے شہروں کا نظام دیگر شہروں کے مقابلے میں مختلف ہونا چاہیے کیونکہ بڑے شہروں کی حکمرانی کا نظام غیر معمولی تبدیلیاں چاہتا ہے اور ان بڑے شہروں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری اور با اختیار بنانا ہو گا۔ گیارہویں یہ طے کرنا ہو گا کہ صوبائی سطح پر صوبائی حکومتیں بہت زیادہ سیاسی و انتظامی ڈھانچوں کی تشکیل سے گریز کریں۔

اصولی طور پر ضلع کونسل کے بعد بس یونین کونسل کا ہی نظام ہونا چاہیے اور یونین کونسل کا چیرمین براہ راست ضلع کونسل کا ممبر ہونا چاہیے جو اپنی مقامی کونسل کی نمائندگی اس بڑی کونسل میں کرے۔ زیادہ سے زیادہ ڈھانچہ کی موجودگی ایک طرف سیاسی و انتظامی ٹکراؤ اور دوسری طرف بے جا وسائل کے خرچ کا بھی سبب بنتی ہے۔ بارہویں ہمیں اس نظام میں زیادہ سے زیادہ شہریوں کی شمولیت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے اور نظام میں ایسے طور طریقے متعارف کروانے ہوں گے جو شہریوں کی اس نظام میں فیصلہ سازی یا دیگر امور پر شمولیت کو یقینی بنا سکیں۔

تیرہویں کم ازکم دس یا پندرہ برس کے لیے حلقہ بندیاں مستقل کی جائیں بار بار حلقہ بندیوں کی تبدیلیوں سے مقامی نظام متاثر ہوتا ہے۔ چودہویں مقامی حکومتوں کے نظام میں انتظامی کیڈر کا تعین ہونا چاہیے اور ان کو مستقل بنیادوں پر اسی نظام کے ساتھ منسلک کیا جانا ضروری ہے۔ پندرہویں مقامی نظام حکومت میں عوام کے منتخب نمائندوں کو زیادہ اہمیت اور با اختیار کیا جائے اور اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ اختیارات عوامی نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کے پاس رکھے جائیں اور مقامی پولیس کو بھی مقامی حکومتوں کے کنٹرول میں یا کمیونٹی پولیسنگ کا نظام متعارف کروایا جائے۔

اگر ہم نے مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا ہے تو اس میں وفاق میں کچھ ترامیم کر کے اس میں غیر معمولی تبدیلیوں سمیت معاملات کو Out of Box جاکر دیکھا جائے۔ یہ کام وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مشاورت کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور یہ کام اسی صورت میں ممکن ہو گا جب پاکستان کی سیاسی جماعتیں خود بھی اپنے داخلی نظام میں جمہوری سوچ اور فکر سمیت عام آدمی کے مفادات کو تقویت دینے کا ایک واضح اور شفاف ایجنڈا رکھتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments