ترقی کا الٹا سفر


ملک کو بنے ہوئے سات دہائیاں گزر گئیں اور بدنصیبی دیکھیے کہ آج بھی اس خطہ کی عوام کو انہی حالات کا سامنا جو ان کو سات دہائیاں قبل درپیش تھے۔ عام آدمی کے لیے تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ آج بھی عام آدمی قابل علاج بیماریوں کے باوجود ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ آج بھی عام آدمی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے آج بھی عام آدمی کی نا تو عزت محفوظ ہے اور نا ہی مال اسباب محفوظ ہے۔ آج بھی عام آدمی کو سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت اور کرپشن کے سبب آنے والے سیلاب کو قدرتی آفت کا نام دے کر بہلایا جا رہا ہے۔

ہائی ویز بنا لیے ، اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ دنوں میں مکمل کر لیا اور میٹروز کا تو سیاسی حریفوں میں گویا مقابلہ ہی چل پڑا۔ شاندار ائرپورٹ سے لے کر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے لیے بنائے جانے والے ایوان طرز تعمیر کا شاہکار ہیں سب کچھ شاندار اور بے مثال ہے مگر ان لوگوں کے لیے جنہوں نے حکمرانی کرنی ہے جو اس زمین پر حکومت کرنے لیے اتارے گئے ہیں جنہوں نے کروڑوں مفلوک الحال اور قسمت کے مارے انسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے۔

کتنی دلچسپ بات ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے یخ بستہ ایوانوں میں بیٹھا ہوا مراعات یافتہ طبقہ فیصلہ کرتا ہے کہ عوام کو کس کس چیز پر سبسڈی دی جانی چاہیے۔ اگر پیٹ پر پتھر باندھنا ہوں تو عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ لے، جو بھی فیصلے وسیع تر مفاد میں ہوں گے ان کا تعلق عام آدمی سے ہو گا اور اس میں قربانی عام آدمی نے ہی دینی ہوگی۔ اگر خدانخواستہ کوئی قدرتی آفت آ گئی تو اس سے نکلنے کے لیے بھی اسی عوام سے مدد کی اپیل کی جائے گی اور اگر زیادہ ضرورت ہوگی تو اقوام عالم سے رجوع کیا جائے گا کہ ہماری مدد کی جائے۔ گویا پہلے دن سے پھیلایا ہوا ہاتھ پھیلا ہی رہا کسی نے کوشش ہی نہیں کی کہ اس پھیلے ہوئے ہاتھ آبرو مندانہ انداز میں بند کر لیا جائے۔

آج کے معروض میں موجود ہر سیاسی جماعت کے پاس عوام کی خوشحالی کا روڈ میپ موجود ہے اور ستم یہ کہ ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی باری پر اقتدار لے چکی ہے اور ہنوز دلی دور است کی طرح اچھے دن تاحال دور است ہیں۔ قدرتی آفت ایک بار یا دو بار کے لیے ہی ہوتی ہے اور اگر ایک ہی شکل کی آفت ہر کچھ مدت بعد تواتر کے ساتھ ظہور پذیر ہونے لگے تو یہ قدرتی آفت نہیں انتظامی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سیلاب ہی کو لے لیں کہ گزشتہ 75 سال سے سیلاب کا تندوتیز پانی عوام کی جمع پونجی لوٹے جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ترقی کہ دعوے تو کرتے ہیں مگر سیلاب کی روک تھام کی کوئی جامع پالیسی نہیں بنا سکے۔ ہر آنے والا سیلاب بنیادی طور پر غریب کی جمع پونجی کو بہا کر اور امیر آدمی کی پہلے سے جمع پونجی میں مزید اضافہ کر کے جاتا ہے۔ سیلاب ہر کسی کے لیے برے نہیں ہوتے یہ بہت سوں کے لیے فائدہ مند بھی ہوتے ہیں۔

چھوٹے سے سرکاری اہلکار سے لے کر افسر شاہی کے ہر بڑے افسر تک اور عام سیاسی ورکر سے لے کر اوپر کی بڑی سیاسی قیادت تک کے لیے سیلاب کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔

نئے ترقیاتی کام شروع ہوتے ہیں اربوں کھربوں روپے کے منصوبوں میں کروڑوں کے کمیشن پہلے طے کر کے وصول کر لیے جاتے ہیں۔ اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر ایک نئی سیاسی نوٹنکی شروع ہوجاتی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ مفلوک الحال اور بے یارو مدد گار ہجوم سے ہمدردی کی سیاسی قیادت کی اداکاری آسکر ایوارڈ کی حق دار ہوتی ہے۔ ایک بیگ راشن کی خاطر عوام سارا دن ذلیل و خوار ہوتی ہے اور یہ راشن تقسیم کرنے والی سیاسی قیادت کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی جیب سے کر رہے ہوں۔

کس قدر آسان مگر بے رحم سیاست ہے کہ قدرتی آفت کے نام پر پہلے سب کچھ چھین لیا جائے اور پھر امداد کے نام پر نا صرف عزت نفس مجروح کی جائے بلکہ اپنی سیاسی نوٹنکی کو بھی جاری رکھا جائے۔ اور عوام بھی کتنی سادہ ہے کہ جس میر کے لونڈے کے سبب بیمار ہوتے ہیں اس کے پاس ہی دوا لینے کے لیے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کو شفا مل جائے گی۔

حالیہ سیلاب میں سیاسی جماعتوں کا رویہ دیکھیں اور ان کے قائدین کی حرکات و سکنات پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی دیکھا ہوا ہے۔ جی ہاں ایک دہائی قبل بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے اور کم وبیش یہی لوگ ہی حاکم تھے جو اس وقت ہیں۔ ایک ہی سین ہے بس اگر فرق ہے تو تاریخ کا فرق ہے کہ یہی ڈرامہ دس سال قبل ہوا اور اب پھر وہی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ ایک ہی ڈرامہ ایک ہی کرداروں کے ذریعہ بار بار کیا جا رہا ہے گویا ہم ناٹک میں بھی جدت پسند نہیں ہیں۔

ایک ہی سکرپٹ، گھسے پٹے ڈائیلاگ او ر کم درجے کی اداکاری نے تو اس سارے کھیل سے دلچسپی ہی ختم کردی ہے۔ کوئی ان سیاست دانوں سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ اگر ہم ترقی کر رہے ہیں تو اس سیلاب کا سدباب کیوں نہیں رہے۔ کیوں کوئی اچھی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ کیوں ہر بار ایک ہی جیسی آفت ہمارا سب کچھ برباد کر دیتی ہے۔

المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ حالیہ مون سون میں ایک محتاط اندازے کے مطابق بارشوں اور اس کے نتیجے میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ان متاثرہ لوگوں میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے شامل ہیں۔ گیارہ سو کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور سولہ سو لوگ زخمی ہیں۔ کم وبیش تین لاکھ کے قریب گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور ساڑھے چھ لاکھ سے زائد گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

سات لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں اور بڑی شاہراؤں کے علاوہ رابطہ سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا ہے ان سڑکوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے جبکہ چھوٹے بڑے ڈھائی سو کے قریب پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ملک بھر کے 72 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے اور ان اضلاع میں سکول، صحت کے مراکز اور سرکاری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر موجود فصلیں بھی زیر آب آ چکی ہیں۔ مجموعی طور پر نقصان کا تخمینہ دس ارب ڈالر سے زائد کا لگایا جا رہا ہے۔ حالیہ ہونے والے نقصان کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے مزید بارشوں کی پیش گوئی کی جا رہی ہے مطلب یہ کہ مزید نقصان کی توقع کی جا سکتی ہے۔

تو یہ تھا ہمارا اب تک کا ترقی کا سفر۔ اب یہ ترقی کا سفر الٹا ہے یا سیدھا اس کا فیصلہ آپ لوگ خود ہی کر سکتے ہیں۔ آپ کا فیصلہ جو بھی مگر ایک بات طے ہے کہ عام آدمی کی ترقی کا سفر شروع ہی نہیں ہوا وہ انہی حالات کے اندر زندہ ہے جیسے کہ ساتھ دہائیاں قبل زندہ تھا بالکل اسی طرح مجبور، بے بس اور لاچار۔ عام آدمی کے حالات نہیں بدلے اس کی زندگی کی مشکلات کم نہیں ہوئیں اس کا سفر ختم نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments