انڈونیشیا کی اسلامی تحریکیں


مسجد نبوی کی پاکیزہ فضا بھی کیسے کیسے اہتمام کرتی ہے۔ یہاں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک بھائی سے میری ملاقات ہو گئی۔ ایک ایسی ملاقات جس کی تفصیل کسی خوب صورت یاد کی طرح تمام عمر میرے حافظے میں محفوظ رہے گی۔ یہ 1994 ء کی بات ہے۔ مدینہ منورہ سے بلاوا آیا، ہم بلا کشان محبت اس دیار محبت میں سر کے بل داخل ہوئے اور اس شہر بے مثال نے ہمیں اپنے دامن محبت میں سمیٹ لیا۔

یہ حج کا زمانہ تھا۔ حجاج کرام فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد دربار رسالت ﷺ میں حاضر تھے۔ حج کا اجتماع بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ انسان یہاں رنگ رنگ کی دینا دیکھتا ہے۔ ایک جیسی تڑپ دل میں سمائے دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ کچھے چلے آنے والے مشتاقان محبت۔ یہاں میں نے اس کرہ ٔارض پر بسنے والی لا تعداد اقوام کے باشندے اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ میں نے پہلی بار دیکھے۔ ان میں ایک قوم کو میں نے دیگر سے زیادہ نمایاں پایا۔

یہ انڈونیشی تھے۔ اس ملک کے لوگ دور ہی سے پہچانے جاتے تھے۔ ایک جیسے نفیس لباس جو ایک عازم حج کی ہر ضرورت پوری کر دیتا۔ سفید کپڑے کا مختصر سا تھیلا بھی اس لباس کا حصہ تھا جس میں ضرورت کی ہر شے سما جاتی۔ عمرو عیار زنبیل کہہ لیجیے۔ اس پر مستزاد ان لوگوں کا نظم و ضبط۔ حرمین شریفین میں جمع اس بے کراں ہجوم یہ لوگ دور سے پہچانے جاتے اور اچھے لگتے۔

یہ مبارک سفر لا تعداد فیوض و برکات مسافر کی جھولی میں ڈالتا ہے۔ اس عاجز کے حصے میں بھی اس کی بساط سے بڑھ کر آیا۔ ہمارے یہاں اس سفر کو محض روحانی مناقب تک محدود رکھنے کی روایت عام ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ تجربہ انسان کو دنیا کو سمجھنے اور اس کی مدد سے اپنی شہری زندگی میں بھی بہتری لانے کے راستے کھول دیتا ہے۔ جیسے میں نے انڈونیشی حجاج کو دیکھا اور ان کی نفاست اور نظم و ضبط سے متاثر ہوا۔ یہ مشاہدہ خوش گوار تو تھا ہی، اس نے یہ سمجھنے کی پیاس بھی پیدا کر دی کہ آخر ان لوگوں کے اس قدر منظم اور مہذب ہونے کا راز کیا ہے؟

اس راز کے کھلنے کی ابتدا مسجد نبوی ﷺ میں رونما ہونے والے ایک خوش گوار حادثے میں ہوئی۔ وہ ذرا بھاری تن و توش کے انڈونیشی بزرگ تھے، دوران نماز جن کے پاؤں صف سے ذرا پیچھے تھے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ سجدے کے لوازمات کی ادائی کے دوران میرا سر ان کی پیٹھ سے ٹکرا گیا۔ اصولاً مجھے ان سے معذرت کرنی چاہیے تھی۔ ارادہ بھی یہی تھا لیکن نماز مکمل ہوتے ہی اس بزرگ نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پلٹ کر پیچھے دیکھا اور معذرت کے طور پر ہاتھ جوڑ دیے۔

میں شرم سے پانی پانی ہو گیا اور ان کے ہاتھوں پر بوسہ دے کر کہا کہ غلطی تو میری تھی کہ جوانی کا الہڑ پن تن و توش پر قدرت کمزور کر دیتا ہے۔ انھوں نے گلے لگا لیا اور پوچھا، ’پاکستانی؟‘ عرض کیا کہ سو فیصد۔ انھوں نے پھر گلے سے لگا لیا پھر اپنے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیوں کسی زنجیر کی طرح ایک دوسرے میں پروتے ہوئے دونوں انگلیوں کو نمایاں کر کے کہا کہ انڈونیشی پاکستانی۔ گویا یہ دونوں قومیں ایک مضبوط زنجیر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح منسلک ہیں کہ انھیں علیحدہ کرنا مشکل ہے۔

نماز کے بعد ہم دونوں ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ گفتگو مشکل تھی کہ زبان یار من ترکی والا معاملہ تھا پھر بھی کچھ عربی انگریزی کے مشترکہ الفاظ سے، کچھ اشاروں کی مدد سے حال احوال ہوا۔ میں نے انڈونیشی حاجیوں کی نفاست اور نظم و ضبط کی تعریف کی تو انھوں نے ایک لفظ بولا ’نہضہ‘ ۔ میں سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتا رہا تو انھوں وضاحت کے لیے دوبارہ لب کشائی کی ’نہضۃ العلما‘ ۔ بات سمجھ میں آئی کچھ نہیں آئی البتہ یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ قرینہ علما کی تربیت کا نتیجہ ہے جسے نہضۃ العلما کے نام سے پکارا جاتا ہو گا۔ وہ سفر خواب و خیال تو کبھی نہیں ہو سکتا لیکن بات پرانی ہو گئی لیکن اس بزرگ کی انگلی میں ڈالی ہوئی انگلی، اس پر زور دیتے ہوئے لفظ پاکستان کی ادائیگی اور نفاست اور نظم و ضبط کے تعلق سے نہضۃ کا لفظ کبھی نہیں بھولا۔

ذہن کے کسی گوشے میں چمکتے ہوئے اس نام کا تذکرہ کئی دہائیوں کے بعد برادر محترم پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین کی زبانی سنا جب انھوں بتایا کہ انڈونیشیا کی دو دینی تحریکیں یعنی نہضۃ العلما اور محمدیہ کے وفود پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ وہ یہاں اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق و مکالمہ میں اپنی اپنی تحریکوں کے فکر، نظام اور سرگرمیوں سے آگاہ کریں گے۔ ڈاکٹر حسن الامین کی دی ہوئی خبر سے گویا سوکھے دل کی کلی کھل اٹھی۔ یہ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ رکنیت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریکوں کے وفود میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے یہ دونوں ہی گفتگو میں پورے اعتماد کے ساتھ شریک رہے۔

ان دوستوں کی گفتگو ایک طرح سے یاد دہانی کا درجہ رکھتی تھی۔ ہماری تحریک آزادی کا زمانہ عالمی اسلامی تحریکوں کے احیا کا بھی زمانہ تھا جب علامہ محمد اقبال، سید جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ اور بدیع الزماں سعید نورسی اور اسی سے متصل زمانے میں ہمارے یہاں سید ابوالاعلی مودودی اپنے اپنے وسائل اور حکمت عملی کے مطابق اپنے معاشروں اور بین الاقوامی سطح پر متحرک ہوئے۔ یہی زمانہ انڈونیشیا میں بھی اسلامی تحریکوں کے احیا کا ہے جہاں 1912 ء میں ابو ضاہلان نے محمدیہ تحریک کی بنیاد رکھی جب کہ 1926 ہاشم اشاری، عبد الوہاب حزب اللہ اور بصری سنسوری نے نہضۃ العلما کی بنیاد رکھی۔

ان دونوں تنظیموں میں قدیم و جدید کے ضمن میں نظریات کا فرق ہے۔ یہ اختلاف فکری ہے جس میں ہرج کی کوئی ایسی بات نہیں البتہ ان دونوں تحریکوں میں ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اصولی طور پر ان تحریکوں کی سیاست سے وابستگی نہیں ہے لیکن یہ کچھ ایسی لا تعلق بھی نہیں ہیں۔ یہ تعلیم، صحت اور معاشرتی نظم جس میں انصاف کی فراہمی بھی شامل ہے، ریاست کی مدد کرتی ہیں۔ یوں یہ تحریکیں دین کے فروغ، دینی بنیادوں پر افراد معاشرہ کی تربیت اور عوامی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہیں۔ دونوں تحریکوں کے زیر اہتمام ہزاروں تعلیمی ادارے اور درجنوں یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں عصری علوم کے علاوہ دینی تعلیم بھی فراہم کی جاتی ہے۔

دینی تعلیم کے اداروں کے ضمن میں ہمارے یہاں ایک مسئلہ ہے۔ طویل عرصے سے ان میں اصلاحات کا معاملہ زیر بحث ہے۔ اس بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہاں فارغ التحصیل ہونے والوں کو زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے مواقع میسر آنے چاہئیں۔ ان کی ڈگریوں کے سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ انڈونیشیا کی ریاست اور یہ تحریکیں ایسے مسائل بہت پہلے ہی حل کر چکی ہیں۔ ان تمام تعلیمی اداروں، ان کے نظام تعلیم اور ڈگریوں کو حکومت تسلیم کرتی ہے اور ان اداروں سے نکلنے والے مرکزی قومی دھارے میں متحرک ہیں۔ یہ لوگ زندگی کے تمام شعبوں میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تحریکوں کے بطن سے کئی سیاسی جماعتیں جنم لے چکی ہیں جن کے عہدے دار منتخب ہو کر قوم کی قیادت کرتے رہے ہیں۔

ان تحریکوں کے سیاست سے براہ راست متعلق نہ ہونے مولانا مودودی کی ابتدائی فکر کی یاد تازہ ہوتی ہے جس کے مطابق تبدیلی نیچے سے آتی ہے، اس طرح ریاستی سطح پر معاملات ازخود درست ہو جاتے ہیں اور صالحین پر مشتمل قیادت وجود میں آ جاتی ہے۔ انڈونیشیا سے سیکھنے والا دوسرا سبق دینی تعلیم کے اداروں کے ضمن میں ہے جسے ریاست تسلیم کرتی ہے اور وہ ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان سے سیکھنے کی تیسری بات تعلیم و تربیت کا وہ نظام ہے جس کے نتیجے میں انصاف عام ہوا، معاشرے میں نظم و ضبط پیدا ہوا اور قوم نظریاتی اعتبار سے مختلف طبقات میں تقسیم ہونے کے بجائے فکری طور پر متحد ہو گئی۔

آگہی کے اس سفر کا نکتہ عروج انڈونیشیا کے سفیر عزت مآب Adam Mulawarman Tugio کے ہاں وہ نشست تھی جس میں ان معاملات پر سیر حاصل بحث رہی۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر حسن الامین، برادر محترم خورشید ندیم اور ممتاز اینکر اویس منگل والا نے مزید گہرائی پیدا کر دی۔ سفیر محترم جناب آدم ملاوارمن ٹوگیو ایک کہنہ مشق کیرئیر ڈپلومیٹ ہیں لیکن دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں، دینی حوالوں سے عالمی سطح پر متحرک مختلف مکتبہ ہائے فکر اور ان کے نظریات کے بارے میں وہ پوری معلومات رکھتے ہیں اور ان موضوعات پر اپنے دلچسپ انداز میں گفتگو کر کے شرکائے محفل کو متوجہ کر لیتے ہیں۔

یہ شام ان کی دل آویز شخصیت اور ان کی پر مغز گفتگو کے لیے میرے ذہن میں تادیر تازہ رہے گی نیز ایک نئی دریافت کے سبب بھی۔ سرکار دربار اور ڈپلومیٹک عشائیوں میں ہمارے یہاں سیاہ سوٹ اور پر کشش ٹائی کے ساتھ شریک ہونا ایک طرح سے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے انڈونیشی دوست ایسا نہیں کرتے، وہ اپنا قومی لباس زیب تن کرتے ہیں، وہی گہرے رنگ کے خوش نما پھولوں والی شرٹ جس گردن تک بند ہونے والے بٹن شخصیت کو وقار عطا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments