صدیق سالک صاحب کی کتاب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کے ہم نے چند ہی صفحات پڑھے پوری کتاب نہیں پڑھ سکے تاہم اتنا سمجھ لیا تھا کہ مغربی پاکستان کا انداز مشرقی پاکستان سے خاصہ برادرانہ اور بزرگانہ تھا اور فارسی میں کہتے ہیں کہ ”سگ باش برادر خورد مباش“ (مفہوم: آدمی کتا ہو تو ہو چھوٹا بھائی نہ ہو) یہ اور بات ہے کہ مشرقی پاکستان کے حقیقت میں برادر بزرگ ہوتے ہوئے مغربی پاکستان کو اس کے برادر خورد بلکہ برخوردار ہونے پر اصرار تھا، جب کہ مشرقی پاکستان، پاکستان کے مغربی بازو کو نہ صرف برادر خورد بلکہ برادر خور تک کہتا تھا۔

آپ نے وہ مشہور بنگلا دیشی لوک کہانی تو پڑھی ہوگی؛ اعظم اور معظم کی، جو کہ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی میٹرک کی انگریزی ٹیکسٹ بک میں بہ عنوان ”انہیریٹرز“ (ورثاء) شامل تھی اور شاید اب تک ہے۔ اعظم اور معظم کو وراثت میں ایک گائے، ایک کھجور کا درخت اور ایک کمبل ملا تھا، جو ”جائیداد“ ان کے بیچ وجۂ نزع بن گئی تھی! سچ پوچھیں تو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا قصہ بھی کچھ کچھ اسی طرح کا تھا۔ فرق یہ تھا کہ اس کہانی ‏ میں بڑا بھائی آخرکار منصفانہ تقسیم کے لیے راضی ہو گیا تھا لیکن مشرقی اور مغربی پاکستان کی کہانی کی ابتداء میں ہی مغربی بازو نے منصفانہ تقسیم قبول کرنے کے بجائے ملک کی تقسیم قبول کرلی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ پاکستان کا مشرقی بازو غروب ہونے کے بجائے بنگلا دیش کی صورت میں طلوع ہوا اور جگمگا رہا ہے جب کہ دوسری طرف پاکستان اس وقت ڈوبا ہوا اور ڈگمگا رہا ہے۔

یہ معروضات ہم نے پاکستان کے موجودہ حالات کی حوالے اور اس خبر کے حوالے سے نذر قارئین کی ہیں کہ کئی ملکوں اور عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے الگ ہونے والے سابقہ مشرقی پاکستان اور حالیہ بنگلا دیش نے بھی موجودہ ابتلاء میں پاکستان کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

ایک اخباری اطلاع کے مطابق، ”بنگلا دیش نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سامان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے امداد بھیجے گا، پاکستان کے لیے کھانے اور دیگر سامان بھیجنے کا بندوبست کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، سیلاب متاثرین کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے جو ہم ادا کریں گے۔“

ہم یہ تو نہیں جانتے کہ بنگلا دیش واقعتاً پاکستان کی مدد کرنے جا رہا ہے یا نہیں؟ لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمارے شرمندہ ہونے کے لیے اس قسم کی امداد کا اعلان ہی کافی ہے۔ کیوں کہ جب بنگلادیش وجود میں آ رہا تھا تو اس قسم کی بھرپور کوشش کی گئی تھی کہ یا تو وہ معرض وجود میں ہی نہ آ سکے اور اگر بفرض محال بنگلادیش بن بھی جائے تو نہ صرف پاکستان کے سامنے بلکہ دنیا کے سامنے بھی کبھی سر نہ اٹھا سکے۔ اور جب ان تمام چیزوں کے باوجود بنگلادیش معرض وجود میں آ گیا تو پاکستان نے بنگلادیش کے بارے میں پیش گوئی کی کہ بنگلا دیش مغربی پاکستان کے بغیر پنپ نہیں سکے گا۔

اسی قسم کی پیش گوئی ہندوستان نے بھی اس وقت کی تھی جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا کہ ہندوستان سے الگ ہو کر پاکستان چند سال بھی نہیں چل سکے گا۔ افسوس بھارتی پیش گوئی 25 سال کے بعد پوری ہوئی اور پاکستانی پیش گوئی کے باوجود بنگلادیش اپنی پچاسویں سالگرہ منا چکا ہے اور اس وقت اس کی سیاسی اور معاشی حالت کم ازکم پاکستان سے زیادہ مستحکم و مضبوط ہے۔ جب کہ ہماری ”بد عملیوں /بدعنوانیوں“ کے باعث بنگلادیش کا ”ٹکہ“ پاکستانی ”روپے“ سے زیادہ قیمتی ہو چکا ہے اور ”پاکستانی روپیہ حقیقت میں تو آدھے ٹاکے ( 2.36 روپیا مساوی 1 ٹاکا) کا ہو گیا ہے لیکن محاورتاً دو ٹکے کا ۔“

اگرچہ دنیا بھر کے ممالک کی طرح بنگلادیش بھی مسائل و مشکلات کا شکار ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بنگلادیش میں کم از کم پاکستان کی بہ نسبت زیادہ بہتر جمہوری اور سیاسی نظام کام کر رہا ہے اور اس نظام کے سامنے کوئی بھی بڑی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن دوسری طرف پاکستان کی طرف دیکھیں تو ایک طرف تو آدھا پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور باقی آدھا سیاسی اور سماجی گرداب میں۔ اور طرہ یہ کہ بقول جناب وسعت اللہ خان ماحولیاتی عناصر نے (پاکستان) کا چھ اطراف سے ( اوپر اور نیچے سمیت) محاصرہ کر لیا ہے۔

وفاق، وفاقی حکومت اور وفاقی طاقت کی بات کریں تو کیا کریں کہ وہ ”رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو “ کے مصداق فی الحال اپنے فرینکسٹائن سے نبٹنے میں مصروف ہیں۔ سو اسی شعر کے دوسرے مصرع کے مطابق ہم سندھ حکومت کی بات کرتے ہیں، ”تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو !“

لیکن سوچتے ہیں کہ بات کریں بھی تو آخر کیا؟ یہی کہنا کافی ہو گا کہ اگر سندھ میں حکومت ہوتی تو دو تہائی صوبہ ڈوب کیوں جاتا۔

ہاں سندھ حکومت چاہے تو کہ سکتی ہے کہ: ”ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ“ ہوتی ”میں تو کیا ہوتا؟“

مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ اب تک تو مولوی صاحبان ہی فرماتے رہتے تھے اور ایک بار پھر ایک بہت بڑے ”تارک ضمیر“ مبلغ صاحب نے فرمایا ہے کہ ”سیلاب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے“ (ہمارے سے مراد ان کے اپنے ہوں تو اور بات ہے ) تاہم ڈھٹائی کی حد تو یہ ہے کہ سندھ کے وزرائے موصوف اپنی نا اہلی اور بد نظمی اور مختلف افراد و اداروں کی بدعنوانی کے اعتراف اور ازالہ و تلافی کے بجائے عوام کے گناہوں کی دہائی دے رہے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تمھارے گناہوں کی سزا ہے۔ کوئی ان بندگان خدا سے دریافت تو کرے کہ بھائی عوام کی اکثریت اپنی دس بیس ہزار ماہانہ آمدنی میں سے دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کر پاتی ہے اور سال بھر میں بھی ڈھنگ سے تفریح کا تصور تک نہیں کر سکتی تو گناہ کرنے کے لیے ان کے پاس وقت اور پیسہ کہاں سے آیا؟

اس صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹر بے چارہ تو یہی کہ سکتا ہے کہ، ”ہمارا گناہ پیپلز پارٹی کو بار بار ووٹ دینے کے علاوہ اور بھی کچھ ہے؟“ یا پھر یہ کہ:

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں