متحدہ قومیت کے خلاف مضبوط مورچہ


سرسید احمد خاں کی وفات کے بعد سید امیر علی ان کے مشن کو آگے لے کر چلے۔ وہ ہائی کورٹ میں محرر تھے اور اس منصب سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں فعال ہو گئے۔ وہ ایک ماہر مؤرخ بھی تھے اور چوٹی کے دانش ور بھی۔ ان کی تصنیف Spirit of Islam (روح اسلام) اہم حلقوں میں بڑے اشتیاق سے پڑھی جاتی تھی جو فکر تازہ کو پروان چڑھاتی تھی۔ انہوں نے سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی داغ بیل ڈالی اور پورے ملک میں اس کی شاخیں قائم کیں۔

1906 میں مسلمانوں کا جو وفد شملہ میں وائسرائے لارڈ منٹو سے ملا تھا، اس میں سید امیر علی بھی شامل تھے۔ اس وقت انہوں نے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ رکھا تھا جس کے ساتھ وائسرائے نے اصولی اتفاق کیا تھا اور وہ 1909 کی آئینی اصلاحات میں شامل تھا۔ حسن اتفاق سے 1903 میں دکن کے شہر اورنگ آباد میں ابوالاعلیٰ مودودی پیدا ہوئے۔ اورنگ آباد کو شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بسایا تھا کہ انہوں نے مرہٹوں کا زور توڑنے کے لیے ربع صدی یہاں قیام کیا تھا۔

جداگانہ انتخابات جو مسلم تشخص کی حفاظت کا موثر ذریعہ تھے، ان سے 1912 میں کانگریس نے بھی اتفاق کیا تھا اور مسلم لیگ اور انڈین کانگریس نے ”لکھنؤ معاہدے“ پر دستخط کیے تھے جس میں جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شامل تھا۔ 1919 کی آئینی اصلاحات میں لکھنؤ معاہدہ شامل کر لیا گیا تھا مگر 1928 میں نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے تمام مطالبات مسترد کرتے ہوئے مخلوط انتخابات کی سفارش کی تھی۔ اس پر مسٹر جناح نے کانگریس سے سیاسی راستے جدا کر لیے تھے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے دکن سے ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کا اجرا 1933 میں کیا جس میں حالات حاضرہ پر نہایت فکر انگیز مضامین شائع ہوتے تھے۔ ان سے مسلم اکابرین متاثر ہونے لگے اور علامہ اقبال مولانا کے قدر دانوں میں شامل ہو گئے جو ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’الجہاد فی الاسلام‘ کے زبردست مداح تھے۔ انہوں نے ترجمان القرآن کے مضامین سے متاثر ہو کر مولانا کو دکن سے پنجاب آنے کی دعوت دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کا اعلان ہو چکا تھا اور ملکی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والی تھی۔

اس ایکٹ کے تحت 1937 میں صوبائی انتخابات منعقد ہوئے جن میں کانگریس سات صوبوں میں حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے ایک طرف حکومتی ذرائع سے مسلمانوں پر ظلم ڈھانا شروع کیا اور دوسری طرح انہیں ہندوستانی قومیت میں شامل کرنے اور ہندو مذہب میں ضم کرنے کے لیے سازشوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ علامہ اقبال نے 1930 میں خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے جغرافیائی اور نظریاتی اعتبار سے نسخہ تجویز کر دیا تھا کہ ان کی ایک علیحدہ ریاست قائم کی جائے۔ کانگریسی قیادت اس تصور کے علی الرغم ایک ایسی پالیسی پر گامزن تھی جو مسلمانوں کو ان کے دین، ان کی تہذیب اور ان کی اعلیٰ روایات سے بے گانہ کرنے والی تھی۔ پنڈت نہرو نے بیان دینے شروع کر دیے تھے کہ مسلمانوں کی کوئی تہذیب ہے نہ کوئی تمدن ہے، اس لیے انہیں ہندوستانی قومیت اختیار کر لینی چاہیے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی ان دنوں دکن سے پٹھان کوٹ کے ایک گاؤں میں منتقل ہو رہے تھے کہ انہیں علامہ اقبال کے اصرار پر دارالاسلام ٹرسٹ کی ذمے داریاں سنبھالنا تھیں جسے چودھری نیاز علی نے اسلام کی اشاعت کے لیے قائم کیا تھا۔ کانگریس کے زیراثر شیخ الہند مولانا حسین احمد مدنی نے ایک بیان دیا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ اس پر علامہ اقبال نے ایک رباعی میں ان کی سخت گرفت کرتے ہوئے اسے بولہبی قرار دیا۔ اس سے مسلمانوں میں شدید اضطراب پیدا ہوا کہ علما کانگریس کے آلۂ کار بنتے جا رہے ہیں۔

مولانا مودودی نے ترجمان القرآن میں اس موضوع پر قلم اٹھایا اور قرآن و سنت سے ثابت کیا کہ مسلمان قوم مصطفوی ہیں جو ایک نظریے سے وابستگی کی بدولت قائم ہے۔ ان کے دلائل اس قدر محکم، زوردار اور ذہنوں میں اتر جانے والے تھے کہ وطنی قومیت کا تصور قدرے مرجھانے لگا۔ اسی زمانے میں شاعر مشرق نے یہی حقیقت ایک مصرع میں بیان کی تھی کہ ع جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ اس پر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ”سیاست اور دین کے متعلق اقبالؔ کا ایک مصرع ایک طرف اور تمام دنیا کا لٹریچر ایک طرف۔ انہوں نے اس موضوع پر دنیا بھر کی کتابوں کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے۔“

علامہ اقبال 21 ؍اپریل 1938 کو دارفانی سے کوچ کر گئے، چنانچہ مولانا مودودی متحدہ قومیت کی تحریک کا زور توڑنے کے لیے ترجمان القرآن میں ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مضمون لکھنے لگے۔ انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی تصنیف کا پوسٹ مارٹم کیا جس میں قوم پرستی کے نظریات پیش کیے گئے تھے۔ پنڈت جی کئی بار کانگریس کے صدر منتخب ہوئے اور گاندھی جی کے متوقع جانشین بھی تھے۔ مولانا کے بقول پنڈت نہرو کے تصور کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے کہ وہ ہندوستان کی آبادی کو ایک قوم فرض کرتے ہیں۔ یورپ کی تاریخ اور سیاست کے مطالعے سے ان کے ذہن میں قومیت کا ایک ہی تصور پیدا ہوا ہے کہ ایک جغرافیائی رقبے کی تمام آبادی ایک قوم ہے۔ یہی وہ تصور ہے جس کے تحت ان کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں :

”ہندوستان میں مسلم قومیت پر زور دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ بس یہی کہ ایک قوم کے اندر ایک دوسری قوم موجود ہے جو یکجا نہیں، منتشر ہے، مبہم اور غیر معین ہے اور سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو یہ تخیل بالکل لغو معلوم ہوتا ہے اور معاشی اعتبار سے بہت دور ازکار ہے۔ مسلم قومیت کا ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں، بس مذہبی اخوت کا رشتہ ہی ایک چیز ہے، اس لیے جدید مفہوم میں کوئی قومیت نشوونما نہ پا سکے۔“

اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت جی کے نزدیک ہندوستان میں ایک قوم رہتی ہے اور یہ ہندو، مسلمان اور عیسائی اس کے فرقے ہیں۔ اس بنا پر وہ ہندوستان کی جماعتوں کے ان اختلافات کو ”فرقہ وارانہ مسئلے“ سے تعبیر کرتے ہیں اور پورے معاملے کو اپنی سطحی سوچ سے الجھاتے چلے جاتے ہیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments