پرائمری سکول کے اساتذہ اور بچوں کے نام


آج کل تو قریبا ”قریبا“ بہت کچھ بدل چکا ہے بچوں کے باقاعدہ پیدائش کی تاریخ رجسٹرڈ کی جاتی ہے بچوں کے ب فارم بنا دیے جاتے ہیں اور بچوں کے پیدائش سے پہلے بچوں کے نام سوچ لئے جاتے ہیں۔

لیکن ایک وقت تھا اور دور دراز علاقوں میں اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ بچوں کے نام کوئی بڑا جو کسی بڑی شخصیت سے متاثر ہو کر رکھتے ہیں اور وہ پھر درست تلفظ کے ساتھ ادا بھی نہیں ہو پاتے اور جیسے غلط العام ہوتے ہیں ویسے ہی پرائمری ٹیچر کے پاس پہنچ جاتے ہیں یا جاتے تھے۔ تاریخ پیدائش بھی ٹیچر اپنی مرضی اور داخلہ تاریخ اور کلاس کی مناسبت سے سکول کے داخلہ رجسٹرڈ میں چڑھا دیتے ہیں یا چڑھا دیتے تھے۔ پھر اسی نام سے بچہ لکھا یا پکارا جاتا ہے یا تھا۔

تاریخ پیدائش اکثر اس طرح سے درج کی جاتی تھی کہ بچہ اگر میٹرک کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سولہ سال کا ہو۔

چونکہ پرائمری کے اساتذہ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے تھے زیادہ سے زیادہ میٹرک پاس ہوا کرتے تھے اور گاؤں کے سکول یا آس پاس کے علاقوں کے سکولوں سے میٹرک پاس کر لیا کرتے تھے تو اکثر گھومنے اور ایسکپوژر کا موقع بھی ان کو نہیں مل پاتا تھا کہ باہر کے ماحول سے کچھ تجربات یا مشاہدات حاصل کرلیتے بس کنویں کی مٹی کنویں پر ہی لگ جاتی تھی۔ بس گاؤں میں ماسٹر صاحب کے نام سے مشہور ہو جاتے تھے اور ان کی بات حرف اول و آخر ہوا کرتی تھی۔

زیادہ تر بچے پہلے کچی پھر پکی اور پھر پہلی میں آتے تھے اور جو نام وہ جیسے لائے ہوئے ہوتے تھے ویسے ہی سکول کے داخلہ رجسٹرڈ میں درج کر لئے جاتے تھے جیسے کہ ایک بچے کا نام امروز خان تھا کسی سمجھدار بندے نے رکھا ہو گا لیکن گھر کے افراد کی لاعلمی سے بگڑ گیا اور امرود خان پکارنے لگا پھر وہ پرائمری سکول کے اساتذہ کے داخلہ رجسٹرڈ کے ہتھے چڑھ گیا جب میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں لاء فیکلٹی میں وزٹنگ فیکلٹی تھا تو لوگ اکثر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ پٹھان بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں بس بچے یا بچی کے نام کے ساتھ خان لگاتے ہیں بھلے وہ امرود ہو یا کریلا تو مجھے بار بار یہ وضاحت دینی پڑتی تھی کہ یہ امرود خان نہیں دراصل امروز خان ہے۔

بالکل اسی طرح ایک لڑکی جس کا نام امراؤ ادا جان رکھا گیا تھا لیکن لاعلمی کے بگاڑ اور پرائمری سکول کے رجسٹریشن کی وجہ سے امرودہ جان کہنے اور پکارنے لگی۔ اسی طرح ایک بچے کا نام لاجورد رکھا گیا تھا اور کتنا اچھا نام ہے اور لاجورد ایک قیمتی پتھر کا نام ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے اور پرائمری سکول کے رجسٹریشن کی وجہ سے لا جبر کہنے اور پکارنے لگا اور آج تک کہا اور پکارا جاتا ہے۔

مختلم شاہ اب آپ خود اس نام کے معنی سمجھ چکے ہوں گے اور مردوں پر اکثر رات یا پھر صبا اٹھنے کے بعد اس کے معنی اچھی طرح سے واضح ہو جاتے ہیں لیکن در اصل یہ نام محترم شاہ تھا جو لا علمی کی وجہ سے بگڑ گیا تھا۔ زمین خان نام تو اس زمین پھر کافی لوگوں کا سننے کو ملتا ہے جو کہ دراصل ضامن خان ہوتا ہے۔ متعال جو اللہ کے صفاتی ناموں میں سے ہے اکثر متوال خان پکارا جاتا ہے۔ صاحب زادہ علی خان کو سبز لی خان لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ ایک اور نام پہنبا گل جو اصل پشتو کا نام ہے جو کپاس کے تخم یا بیج کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے رکھا جاتا ہے لیکن لا علمی کی وجہ سے پوں پا گل لکھا اور پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح ریدی گل ایک مشہور پھول ہے جو پشتو لوک میں بارہا استعمال ہوا ہے جسے غلط فہمی کی وجہ سے ردی گل سمجھا جاتا ہے۔

گل دی د ریدی مالہ یہ رروڑہ
زہ پہ وربل کے بہ یہ گدمہ
گل دی
میرے لیے ریدی کا پھول لانا
میں اس کو اپنے زلفوں میں سجھاؤں گی

اسی طرح بعض نام معنی مطلب اور قبائلی منشا کے لحاظ سے رکھے جاتے تھے۔ جیسے ڈھیران شان یہ اس لئے رکھتے تھے کہ ڈھیران بہتات کی علامت ہوتی ہے اور جو والدین اپنے بچے کو مستقبل میں بچوں کے لحاظ سے غنی دیکھنا چاہتے تھے تو اس پر ڈھیران شاہ یا ڈھیران گل نام رکھتے تھے ورنہ ڈھیران کا شاہ اور گل سے کیا مقایسا۔ یا کچکول نام رکھتے تھے جس کا مطلب کشکول ہے جو مالا مال اور دولت سمیٹنے کے معنی یا پھر روحانی یا عاجزی کے لئے رکھتے تھے۔ یا بسم اللہ خان نام رکھتے ہیں جو کسی بھی پہلے بیٹے کا نام ہوتا ہے یا پھر زیادہ بیٹیاں ہونے کی وجہ سے بلہ نشتہ یا ختمہ جو خاتمہ کے معنوں میں استعمال ہوا کرتا ہے رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments