ہمدردی کا فقدان اور اسکی وجوہات


حضرت انسان، جب اس کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات اور اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجا تو اس کی مٹی کو اصلتاً ہمدردی کے خمیر میں گوندھا گیا تھا اور اس بات کا بین ثبوت ہمیں تاریخ کے قرطاس پر جابجا ملتا ہے مگر دوسری جانب ہمیں اسی حضرت انسان کی حیوانیت اور بربریت کے نقوش بھی انہی صفحات پر نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ایسی کون سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی قسم کے معاشرے اور خاندان میں پروان چڑھنے والے افراد ہمیں دونوں انتہاؤں پر ملتے ہیں۔

یہ بات امر واقعی ہے کہ انسان کی عادات و خصائل اور رویوں کی تشکیل میں فطرت کو ایک لازمی حیثیت حاصل ہے مگر انسان کے تمام اعمال کو فطرت سے منسوب کر کے خود بری الذمہ ہو جانا بھی درست رویہ نہیں۔ نفسیات کے مضمون میں اس موضوع پر Nature vs Nurture کے عنوان سے طویل بحث موجود ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت سازی میں فطرت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ایک لازمی عنصر ہے کیوں کہ انسان اللہ کی طرف سے متعین کردہ جینس کی کوڈنگ میں تو رد و بدل نہیں کر سکتا تو اس لیے اس کا اختیار صرف تربیت یعنی Nurture تک محدود رہ جاتا ہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کچھ انسانوں کی فطرت مثبت رجحانات اور کچھ کی منفی رجحانات کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے بس انسانوں کا دائرہ کار شخصیت سازی میں اس کے بعد سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس اہم کام کا نازک ترین مرحلہ ماں کے پیٹ میں سے لے کر پانچ سال کی عمر تک ہوتا ہے یہ انسانی زندگی کی وہ عمر ہوتی ہے جس میں بچے کی تمام تر توانائیاں حس مشاہدہ میں صرف ہو رہی ہوتی ہے اسی وجہ سے جتنی تیزی سے اس عمر کا بچہ اپنے اردگرد سے سیکھ رہا ہوتا ہے کسی بھی عمر کا انسان اس رفتار تک نہیں پہنچ سکتا اس تمہید سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ فطرت کے بعد انسان کی شخصیت سازی میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے وہ عمر کے ابتدائی سال ہیں۔

دوسرا عنصر جو انسان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ فرد کے اقرباء ہیں۔ انسان کی شخصیت کے حوالے سے پہلا آئیڈیل اس کا والد (لڑکا ہوتو) یا اس کی والدہ (لڑکی ہو تو) ہوتی ہیں۔ چنانچہ والدین اور کسی حد تک اقرباء کی عادات اور رویوں کا اثر بچے پر اس وقت پڑتا ہے جب اس کی شعوری سلیٹ بالکل صاف ہوتی ہے اسی لئے انسان کی شخصیت سازی میں والدین اور اقربا کا کردار نہایت اہم ہے۔

بیسویں صدی تک انسان کی شخصیت سازی میں تیسرا بڑا کردار اساتذہ اور اتالیقوں کا ہوا کرتا تھا مگر اکیسویں صدی میں ان کے ساتھ جدید ذرائع ابلاغ بھی لا شعوری طور پر بچوں کی تربیت کرتا نظر آتا ہے اس کے اثرات کا منفی یا مثبت ہونا ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے مگر اس کے موثر ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔

شخصیت سازی میں چوتھا بڑا کردار مذہب اور مذہبی پیشواؤں کا ہوتا ہے چونکہ مشرقی معاشروں میں ابھی تک مذہب ایک لازمی اکائی ہے اس لیے یہاں افراد پر اس کا اثر و رسوخ مغرب کی نسبت زیادہ ہے لیکن اب مشرقی معاشروں نے بھی دنیا کو مغربی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے یہاں بھی مذہب اور دنیاوی معاملات کو جدا کرنے کی تحریک شروع ہو گئی ہے جس سے مذہبی رہنماؤں کا جدید نسل پر اثر و رسوخ بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود مذہب اور مذہبی تعلیم تربیت میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں

پانچواں اور آخری کردار شخصیت سازی میں ریاست اور ریاستی نمائندوں کا ہوتا ہے۔ اور اس کا موثر ترین اظہار طاقتور اور کمزور پر روزمرہ کے قوانین کا اطلاق اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ذریعہ سے ہوتا ہے

یہ تمام عناصر شعوری اور لا شعوری طور پر فرد کی تربیت میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں اس لیے جب ایک منفی رجحان کی فطرت کا حامل شخص ان تمام تر عناصر کی کوتاہیوں کے ساتھ پروان چڑھتا ہے تو سفاکیت کی انتہا کو بھی چھونے سے گریز نہیں کرتا۔ دوسری جانب مثبت رجحانات کی فطرت کا حامل شخص جب ان تمام عناصر کی بوجہ احسن ادا کردہ ذمہ داریوں سے چھن کر نکلتا ہے تو وہ اپنی بنیادی جبلت یعنی ہمدرد کے ارفع مقام تک پہنچتا ہے۔ ان سب باتوں کے تناظر میں اگر ہم موجودہ پاکستان کی حالت کو دیکھیں تو ہمیں چنداں حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہاں والدین اور اقرباء کے سوا باقی تمام عناصر اپنی ذمہ داریوں سے بے اعتنائی برتتے نظر آتے ہیں اور اب بدقسمتی سے فیملی سسٹم کے قلعہ پر بھی نقص لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بلاشبہ اقوام کی بقا میں حربی اور معاشی وسائل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر افرادی قوت اور زرخیز ذہن کے بغیر ان وسائل کے حصول کی دوڑ لا یعنی مشق ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments