سندھی ہم وطنوں پر سیلاب کی افتاد اور اہل بہاولپور


بہاول پور کوئی بہت بڑا شہر نہیں۔ انگریزوں نے یہاں سے ریلوے لائن گزاری تو شہر کے ایک کونے میں ”بہاول پور“ کے نام سے ایک ریلوے اسٹیشن بنایا اور تقریباً پندرہ منٹ کے فاصلے پہ شہر کے آخری کونے میں ایک دوسرا ریلوے اسٹیشن ”بغداد“ کے نام سے بنا دیا۔ بہاول پور کے نواب چونکہ اپنا تعلق عراق کے حکمراں عباسی خاندان سے جوڑتے تھے تو ان کی خواہش پہ دوسرے ریلوے اسٹیشن کا نام ”بغداد“ رکھا گیا۔ پشاور، لاہور اور کراچی کے درمیان چلنے والی ریلوے ٹریفک ”بہاول پور“ نامی ریلوے اسٹیشن سے ہو کر گزرتی اور دہلی اور کراچی کے درمیان چلنے والی ریلوے ٹریفک ”بغداد“ نامی ریلوے اسٹیشن اور سمہ سٹہ جنکشن کے راستے گزرتی۔

دلچسپ بات دیکھیں کہ پاکستان بننے کے بعد بھی دہلی حکومت اپنے لیے باہر سے فارن کرنسی یا کوئی بہت ہی قیمتی سامان منگواتی تو یہ کراچی میں بحری جہاز سے اتار کے مال بردار ٹرین پہ لاد کے براستہ بہاول پور دہلی جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی براستہ ”بغداد“ ریلوے اسٹیشن اور سمہ سٹہ جنکشن دہلی جانے والی مسافر ٹرینیں چلتی رہیں۔ خیر۔

بہاول پور کو پاکستان کے سب سے زیاد پرامن شہر کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے اس شہر کو بھی نظر لگ گئی ہے۔ شہر کے چاروں طرف باغوں اور درختوں کی کٹائی کر کے بے ہنگم قسم کے ٹاؤنز بنائے جا رہے ہیں۔ اڑھائی سو سے زیادہ ٹاؤنز بنائے جا چکے ہیں۔ لگ رہا ہے آئندہ چند دہائیوں بعد یہ خوبصورت اور پرامن شہر بھی کراچی، حیدرآباد، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں جیسے نہ حل ہونے والے خوفناک سوک مسائل اور تباہی و بربادی کا سامنا کر رہا ہو گا۔ خیر۔

ابھی بھی شہر بہت زیادہ نہیں پھیلا۔ کبھی میں گھٹن اور بوریت محسوس کرتا ہوں تو اپنے ”کھٹارا“ موٹر سائیکل کا رخ شہر سے باہر کی طرف کر دیتا ہوں۔ سڑک کنارے کسی ڈھابے پہ چائے پیتا ہوں۔ کچھ دیر کھلی ہوا میں بیٹھا رہتا ہوں۔

گزشتہ دنوں بھی دل میں ”با ا ا اڑ“ اٹھی کہ شہر سے باہر تازہ ہوا کھا آؤں۔ شہر سے باہر جانے کے لیے موٹر سائیکل پہ روانہ ہوا۔ شہر کے درمیان میں گزرنے والی دو رویہ سڑک پہ چھوٹے بچے تیز رفتاری سے موٹر سائیکلز چلا رہے تھے اور دیگر لوگ بڑے آرام سے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سامنے سے گاڑیاں لا رہے تھے۔ بہاول پور میں عموماً سات آٹھ سال کے بچے کو موٹر سائیکل اور دس سال کے بچے کو کار چلانا سکھا دی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے دنیا بھر میں پائلٹس کی آئے روز کی ہڑتالوں سے تنگ آ کر ائر لائن کمپنیوں نے ”بچہ پائلٹ“ منصوبے کو پاکستان میں فنڈنگ کیا ہو تاکہ جب ان کے پائلٹس ہڑتال پہ جائیں تو بہاول پور سے ہزاروں ”ریڈی میڈ“ پائلٹس منگوا کر کام پہ لگا دیا جائے۔ ”شاباش جہاز بھی اڑاؤ اور خود بھی جہاز بن جاؤ“ ۔

شہر میں دو رویہ سڑکوں کے ہونے کے باوجود لوگ بڑے فخر سے اپنا خاندانی اور قانونی حق سمجھتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی اس لیے کرتے ہیں کہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جو ٹیسلا کمپنی اڑنے والی کاریں تیار کر کے دبئی میں بطور ٹیکسی کار چلانا چاہتی ہے تو اس کے لیے ڈرائیورز بہاول پور سے ہی لیے جائیں گے تو شہر میں سڑکوں پہ ون وے کی خلاف ورزی دراصل ٹریننگ کا حصہ ہے تاکہ فضا میں بھی اڑنے والی ٹیسلا کار چلانے میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خیر۔

سڑک کنارے ایک ڈھابہ پہ موٹر سائیکل کو بریک لگائی۔ یہاں مزدور پیشہ لوگ آ کر بیٹھتے ہیں۔ قریب ہی سڑک اور ریلوے لائن کے درمیان پکھی واس خانہ بدوشوں نے جھونپڑیاں ڈالی ہوئی تھیں۔ جھونپڑیوں کے اوپر کبوتر اڑ رہے تھے اور ”آآ ا ووآ آاوو“ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کہتے ہیں کبوتر بازی کے شوق نے بر صغیر کے راجوں اور نوابوں کو اس قدر سست بنا دیا تھا کہ وہ پرتگیزیوں، ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت کے قابل ہی نہ رہے تھے اور جب یورپی تاجر کمپنیاں برصغیر پہ اپنا قبضہ مضبوط کرنے میں لگی ہوئی تھیں تو یہ راجے اور نواب بس ”آ آ اوو آ آ اوو“ میں لگے ہوئے تھے۔

بابے لوگ کہتے ہیں بدروں یا بادھوں کی بائیس کی شام کو ایک ستارہ طلوع ہوتا ہے تو سردی کے موسم کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے اور پھر صبح کے وقت شمال سے نیم سرد ہواؤں کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ عصر کا وقت تھا۔ بغیر چھت کے ڈھابہ پہ بیٹھے ہوا بہت خوشگوار لگ رہی تھی۔ سڑک کنارے سرکنڈوں سے گزرتی ہوا موسیقی پیدا کر رہی تھی۔ دال فرائی کا آرڈر دیا۔ دال کے ساتھ اچار اور تندور پہ تازہ اور خستہ روٹی پکا کر دی گئی۔ بھاپ اگلتی گرم گرم چائے ”سڑکتے سڑکتے“ میں خاموشی سے مزدوروں کی باتیں سننے لگا۔

”او سائیں! بارشاں تے سیلاب تے سندھ دے لوگاں کوں تباہ تے برباد کر ڈتا اے“ (او سائیں! بارشوں اور سیلاب نے تو سندھ کے عوام کو تباہ و برباد کر دیا ہے ) ۔ ایک بولا۔ ”نا سائیں! سندھ آلاں کالا باغ ڈیم دی مخالفت کیتی ہائی تاں انھاں کوں سیلاب دی صورت اچ سزا ملی ہے“ ۔ (نا سائیں! سندھ والوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تھی تو انھیں سیلاب کی صورت میں سزا ملی) ۔ دوسرا بولا۔ ”اچھا، تاں ول اے سزا ڈتی کیں؟“ (اچھا، تو پھر یہ سزا دی کس نے؟ ) چائے بناتے ہوئے ڈھابہ والے نے سوال اٹھایا۔ دوسرے والے نے جواب دیا ”ظاہر ہے قدرت نے سزا دی“ ۔ ڈھابہ والا یہ سن کر بڑبڑایا ”قدرت“ اور پھر طنزیہ ہنسی ہنسنے لگا۔

سیاست ہے میرے دیس کی یا انداز دلربا حسینہ کا
مسکرائی، پھر نہ آئی، حیران کھڑے وعدوں کے بازار میں
اکبر میاں اب تک تو دیکھے لٹیرے رہنما کے بھیس میں
لٹتے چلے آ رہے ہیں کسی ان دیکھی سرکار میں

احباب! سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ سیلاب نہیں آئیں گے؟ کوئی ضمانت ہے کہ آئندہ طوفانی بارشیں نہیں آئیں گی؟ پوری دنیا کے سائنسدان گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہارپ ٹیکنالوجی بھی بہت زیادہ ایڈوانس ہو چکی ہے اور بعض ممالک تو اسے حملہ آور ہتھیار کے طور پہ لے رہے ہیں۔ اگر آئندہ سال یا مستقبل قریب میں اس سے بھی زیادہ مقدار کی بارشیں آ کر خوفناک سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتی ہیں تو پھر آپ کیا کریں گے؟

اکبر شیخ اکبر حکومت، تھنک ٹینکس اور پلانرز سے گزارش کرتا ہے کہ فوری طور پہ مستقبل کی طوفانی بارشوں سے پیدا ہونے والی ممکنہ سیلابی صورتحال سے پیدا ہونے والی تباہی کو قبل از وقت روکنے کے لیے ٹھوس پلاننگ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments