توہین عدالت نہیں پس آئینہ کھچڑی


دس اپریل کو جب بیرونی مداخلت سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ تو سیاسی مبصرین یہ سمجھ رہے تھے کہ اب سیاسی حالات معمول پر آئیں گے۔ مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ لیکن یہ تاثر 100 فیصد غلط نکلا۔ گزشتہ پانچ مہینوں سے ملک میں سیاسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ ان پانچ مہینوں میں ملک خدا داد پاکستان کے اندر جو کچھ ہوا۔ وہ قطعاً جمہوری اور قانونی نہیں۔ اظہار رائے آزادی پر غیر علانیہ طور پر پابندی عائد ہیں۔

سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں۔ کئی صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ کئی چینلز پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سوشل میڈیا کو کئی بار بند کیا گیا۔ ہزاروں افراد کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو ٹیلی فون کالز کے ذریعے دھمکایا جاتا ہے۔ الغرض ہر طریقے سے ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر غیر علانیہ پابندی عائد ہیں۔ اظہار رائے کسی بندے کا بنیادی انسانی، قانونی، پیدائشی اور جمہوری حق ہے۔

اس کو چھیننے کا مطلب فاشزم کو فروغ دینا ہے۔ موجودہ دور میں کسی بھی ملک میں اظہار رائے پر پابندی نہیں عائد کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ جس کی پاکستانی قانون میں اجازت نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں پر ناجائز مقدمات قائم کیے گئے۔ پولیس نے بغیر سرچ وارنٹ کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے۔ حتیٰ کہ عورتوں اور بچوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔

سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے نئے حربے استعمال ہوئے۔ غیر قانونی اور غیر جمہوری روایات کو فروغ دیا گیا۔ ان پانچ مہینوں میں ہر ممکن کوشش ہوئی کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کریں۔ لیکن دوسری طرف ان پانچ مہینوں کے مشکل ترین اور اعصابی جنگ میں پاکستانی قوم نے عمران خان کا ساتھ دیا۔ کیوں کہ عمران خان عوام کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔ جس کو عوام ضائع نہیں کرنا چاہتی ہیں۔

پاکستان کے 75 سالہ تاریخ میں قائد اعظم کے بعد عمران خان کو پذیرائی مل رہی ہے۔ کیوں کہ عمران خان عوام کی زبان بول رہے ہیں۔ اپنے 3 سال اور 8 مہینوں کی حکومت میں عمران خان نے کئی لازوال مثالیں قائم کیں۔ آپ نے ہر ممکن کوشش کی۔ تین سالوں میں سے دو سال کرونا کے نظر ہو گئے۔ احساس پروگرام، انصاف صحت کارڈ، انصاف ہاؤسنگ اتھارٹی، رحمت اللعالمین اتھارٹی، سادگی، آزاد خارجہ پالیسی، یکساں نظام تعلیم سمیت کئی منصوبے شروع کیے۔

نہ صرف پاکستانیوں کی آواز بنے بلکہ پوری امت مسلمہ کی آواز بن کر توہین رسالت اور مسلم فوبیا کے خلاف علمی سطح پر آواز بلند کی۔ عمران خان کی مقبولیت اور آزاد خارجہ پالیسی امریکہ کو راس نہیں آئی۔ سزا کے طور پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے عمران خان کے اتحادیوں کو الگ کر دیا گیا۔ اور عمران خان کو حکومت سے الگ کر دیا گیا۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ گزشتہ پانچ مہینوں سے یہ کوششیں ہو رہی ہے کہ عمران خان کو سیاسی میدان سے آؤٹ کیا جائے۔

اس تناظر میں توشہ خانہ کا شوشہ چھوڑا گیا۔ مگر کچھ ہاتھ نہیں لگا پھر فرح گوگی کیس بنا دیا تاکہ اس بنیاد پر عمران خان کو نا اہل کیا جائے۔ اس کیس میں بھی شکست کا سامنا ہوا۔ پھر کبھی فوج تو کبھی توہین عدالت بالآخر ایک ایسے کیس میں عمران خان پر توہین عدالت لگانے کا الزام لگا کر آؤٹ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہے۔ جس میں عمران خان پر توہین عدالت کا کیس بنتا بھی نہیں ہے۔ یہ کیس صرف سیاسی بنیادوں پر قائم کر کے پہلے سے فیصلہ تیار کیا گیا ہے۔

پاکستانی تاریخ میں توہین عدالت کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو انہی اداروں نے عدالت کے ذریعے منظر عام سے ہٹایا۔ افسوس توہین عدالت ہمیشہ سیاست دانوں پر کیوں عائد ہوتی رہی۔ آج تک کسی جنرل کو اس قانون کے مطابق سزا نہیں ملی۔ کئی جنرلوں کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ توہین عدالت کیس کے پس آئینہ کھچڑی پک رہی ہے۔ وہ کھچڑی عمران خان کو نا اہل کرنی کی کھچڑی ہے۔

بس بات نا اہلی تک نہیں بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے باقاعدہ لابینگ شروع ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جو کہ عنقریب بغاوت کا اعلان کرنے والا ہے۔ پنجاب میں بھی خرید و فروخت کے لیے کوششیں ہو رہی ہے۔ ایم پی ایز کو دھمکایا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔

بات صرف یہاں تک محدود نہیں۔ مائنس عمران خان فارمولا بھی ہدف ہے۔ باغی ایم پی ایز عمران خان کی مخالفت کریں گے اور مطالبہ کریں گے کہ عمران خان کو ہٹا کر شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک یا اسد میں سے کسی کو پارٹی سربراہ بنائے۔ یہ فارمولا تیار کیا جا چکا ہے۔ اور پس آئینہ اس پر کام شروع بھی ہے۔ بظاہر عوام کو توہین عدالت کے نام پر بے وقوف بنانے کی کوششیں ہو رہی ہے۔ لیکن یہ 70 اور 90 کی دہائی نہیں۔ جہاں حقائق کو پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔

آج کا نوجوان اور شہری زیادہ سیاسی فہم و فراست اور شعور رکھتا ہیں۔ لہذا وہ صرف نظر آنے والی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ دیوار کے پار دیکھتے ہیں۔ اپ ان کو آزاد عدلیہ اور قانون کی بالادستی کے چورن پر بے وقوف نہیں بنا سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جدید دور میں پرانی وارداتوں اور فلمی مناظر پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments