عمران خان، فوج، الیکشن کمیشن اور عدلیہ


سیلاب کی تباہ کاریوں نے پورے ملک میں قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف سیلاب زدگان کی اشک شوئی کے لئے قریہ قریہ پھر رہے ہیں جب کہ سابق وزیر اعظم عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھانے کے لئے ”جلسہ جلسہ“ کھیل رہے ہیں۔ عمران خان تنقید کی پروا کیے بغیر اپنی دھن میں مگن ہیں۔ وہ اس بات پر بضد ہیں سیلاب ہو یا جو کچھ بھی ہو حقیقی آزادی کی جنگ ترک نہیں کریں گے البتہ انہوں نے سیلاب زدگان پر ایک ”احسان عظیم“ کیا ہے۔ ٹیلی تھون پر 500 کروڑ روپے کے عطیات اکٹھے کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق 73 ء1 ارب روپے ہی ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے ہیں۔ عمران خان صرف سیاسی مخالفین کو ہی نہیں رگید رہے ہیں بلکہ وہ عدلیہ کی شان میں گستاخی سے گریز نہیں کرتے کبھی وہ اسٹیبلشمنٹ سے اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن تو پہلے ہی ان کے نشانے پر ہے۔ اب تو انہوں نے فوج کے بارے میں ”ریڈ لائن“ بھی عبور کر دی ہے۔ ان کی تازہ ترین ”واردات“ فیصل آباد کے جلسہ کی ہے جس میں انہوں نے عسکری قیادت کی حب الوطنی کو چیلنج کر دیا ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کو جلسوں میں زیر بحث لایا ہے بلکہ آرمی چیف کی حب الوطنی کا سوال کھڑا کیا ہے۔ ان کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کا جہاں سیاسی حلقوں نے نوٹس لیا ہے۔ وہاں فوج کے ترجمان نے بھی شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ فوج کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ”نازک وقت میں پاک فوج کی سینئر قیادت کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے۔ فوج میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بیان پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ آرمی چیف کے انتخاب کے عمل کو متنازع بنانا نہ ریاست پاکستان اور نہ ہی ادارے کے مفاد میں ہے۔ پاک فوج آئین پاکستان کی بالادستی کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔”

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران نیازی کا مذموم ایجنڈا واضح طور پر پاکستان کو تباہ کرنا اور کمزور کرنا ہے۔ اب وہ مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف براہ راست کیچڑ اچھالنے اور زہریلے الزامات میں ملوث ہو رہے ہیں۔

عمران خان کو عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لینے پر توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کے فل بینچ سے معافی نہ مانگنے پر ان پر 22 ستمبر 2022 ء فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ اسلام ہائی کورٹ نے عمران خان کو اپنے بیان پر معافی مانگنے کا موقع دیا لیکن ان کی جانب سے صرف اظہار افسوس کرنا عدالت نے قبول نہیں کیا ججوں کو دھمکیاں دینے پر ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بھی بن چکا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے آئے روز عمران خان کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دے کر انہیں عدالتوں سے ضمانتیں کرانے پر مجبور کر دیا ہے۔

موجودہ حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے ہچکچا نہیں رہی تاہم ان کی ”جیل یاترا“ کی کمزوری کا سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ کبھی یہ خبر چلا دی جاتی ہے کہ 11 اہم شخصیات کے اجلاس میں عمران خان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ جہاں تک میری اطلاع ہے ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ کیس فیصلہ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ توشہ خان کیس ریفرنس کو نتیجہ خیز بنایا جائے گا۔ اس وقت عمران خان پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا لیکن اب تو عمران خان عدلیہ کو دھمکیاں دینے کے کیس میں فرد جرم عائد ہونے والی ہے۔

عمران خان بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے بارے میں اپنے الفاظ واپس لئے ہیں اور نہ ہی معافی مانگی ہے۔ صرف اس قدر کہا ہے کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔ میرا مقصد خاتون مجسٹریٹ کی دل آزادی نہیں تھا۔ خاتون جج کو دھمکانے کا ارادہ نہیں تھا بلکہ ایسا کرنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔

تاہم عمران خان نے اپنے بیان پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے جواب کو ناکافی قرار دے کر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا عمران خان نے دہشت گردی کیس میں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا لیکن اب انہوں نے یو ٹرن لے لیا ہے اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے۔

عمران خان پچھلے دو ہفتوں کے دوران لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، گجرات، پشاور، چشتیاں اور گوجرانوالہ میں جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ کسی جگہ ان کے جلسوں میں خوب رونق ہوتی تو کسی جگہ جلسہ فلاپ ہوجاتا ہے لیکن عمران خان اپنے جلسوں کی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ شہروں میں انہوں نے جلسہ گاہوں کے لئے سٹیڈیم منتخب کیے ہیں۔ جہاں انہوں نے جلسے کر کے سٹیڈیمز کا حسن تہ بالا کر دیا ہے جس پر کرکٹ اور ہاکی کی تنظیمیں نوحہ خواں ہیں کہ ایک ایسے شخص کے ہاتھوں سٹیڈیم اجاڑ دیے گئے ہیں جس نے خود کرکٹ سے سیاسی عروج حاصل کیا ہے۔ اسی طرح بلین ٹری لگانے کی دعوے دار پارٹی نے لیاقت باغ میں جلسہ کرنے کے لئے سینکڑوں درخت اکھاڑ دیے۔

عمران خان اقتدار میں تھے تو بھی چومکھی لڑائی لڑتے رہے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد انہوں نے اپنی اس روش کو تبدیل نہیں کیا وہ الیکشن کمشن بھی برستے رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ان کا پالتو ہے۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں۔ کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا اب تو انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول لیا ریاستی ادارے ان کی آئے روز کی تقاریر کا ترکی بہ ترکی جواب دینے سے گریزاں ہیں لیکن جب عمران خان ”ریڈ لائن“ کراس کرتے ہیں تو پھر انہیں جواب مل جاتا ہے۔

عمران خان میں یہ خوبی ہے کہ وہ ہر روز اپنی پسند کا محاذ کھولتے ہیں۔ اکثر و بیشتر جلسہ کا موڈ دیکھ کر تمام حدود عبور کر جاتے ہیں تو لا محالہ ریاستی اداروں کو بھی جواب دینا پڑتا ہے۔ انہوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری بارے میں بہت سی ایسی باتیں بھی کہہ دی ان کی گرفت کا باعث بن سکتی ہے۔ اب تک فوج اور عدلیہ نے ان کی ہرزہ سرائی کا صرف نوٹس لیا تھا اور اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کوئی بڑا اقدام نہیں اٹھایا لیکن اس نرم روی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عمران کی دھمکیوں کا سلسلہ رکا نہیں

معلوم نہیں ان کا ”سیاسی استاد“ کون ہے جو انہیں ریاستی اداروں سے تصادم اور ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرنے کی راہ پر لگا رہا ہے۔ ویسے تو وہ 23، 24 سال کی ریاضت کے بعد اپنے آپ کو ”استاد الاساتذہ“ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے۔ کبھی عمران خان اپنے آپ کو ”کارنرڈ ٹائیگر“ بننے کا اعلان کرتے ہیں لیکن کبھی ان کی تقاریر سے یہی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ برتنوں کی دکان میں سانڈ بن گئے ان کے سامنے جو چیز آئے گی اسے تہس نہس کر دیں گے۔ ان کو اپنی مقبولیت پر اس قدر ناز ہے کہ وہ ہر سیاسی جماعت کے لیڈر کو میدان میں آنے کا چیلنج دے رہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت مقبولیت کی اس معراج کو چھو رہے ہیں۔ جہاں کسی اور کے پہنچنے میں سکت نہیں چونکہ نواز شریف برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس لئے اکیلے میدان میں دندناتے پھر رہے ہیں لیکن انہیں اندازہ ہے کہ ان کی ٹکر کا ایک ہی لیڈر ہے۔ وہ ہے نواز شریف۔

نواز شریف کی واپسی پر ہی میدان سجے گا لیکن معلوم نہیں اس وقت عمران خان تاریخ کا ایک گم گشتہ ورق بن چکے ہوں گے۔ عمران خان نے اب ایک درفنطنی چھوڑی ہے۔ پنجاب حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے۔ مسٹر ایکس اور وائی بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عمران خان ایکس، وائی کو بہتر جانتے ہیں لیکن ان کے نام لینے سے گریزاں ہیں۔

عمران خان نے ایک اور پتا پھینکا ہے اور کہا ہے کہ جب تک نئے انتخابات نہیں ہو جاتے موجودہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے دی جائے اور نئی حکومت آ کر نیا آرمی چیف مقرر کرے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک اور یو ٹرن لے لیا اور کہا کہ میں ایکسٹینشن کی بات نہیں کہی بلکہ یہ کہا ہے کہ نئی حکومت کے آنے تک موجودہ آرمی چیف ہی رہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اب دیکھنا یہ ہے۔ عمران کے اس نئے شوشے کو عسکری حلقوں میں کس قدر پذیرائی حاصل ہوتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments