قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ (9)


احمد ندیم قاسمی صاحب اور علامہ سید غلام شبیر بخاری صاحب کی حسین یادوں پر مشتمل باتوں کو تمام تر شرکائے قافلہ پڑاؤ بہت محو ہو کر سن رہے تھے۔ اداکار محمد علی صاحب نے بھی اپنی یادوں کا دفتر کھول دیا اللہ جانے کب کب اور کہاں کہاں کی باتیں انہیں یاد آ گئیں۔ شوٹنگ کے سلسلے میں انہیں اپنے بلوچستان کے دورے بھی یاد آ گئے اور فخرالدین بلے بھائی صاحب کے ہاں کوئٹہ، قلات اور خضدار میں اپنا قیام بھی اور زیارت کا وزٹ بھی۔

عطاء شاد صاحب اور فخرالدین بلے بھائی صاحب کے ساتھ طویل نشستیں بھی۔ جیسے ہی محمد علی صاحب نے گفتگو میں توقف فرمایا تو ڈاکٹر اجمل نیازی نے پھر سے احمد ندیم قاسمی صاحب کو اپنی گفتگو جاری رکھنے کی گزارش کی تو جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے سید فخرالدین بلے صاحب کے ساتھ اپنی رفاقت کے حوالے سے بہت سے دلچسپ واقعات بیان فرمائے اور پھر انہوں نے سید فخرالدین بلے فن، شخصیت اور خدمات کے تناظر میں اظہار خیال فرمایا۔

اپنے خطاب میں قاسمی صاحب نے مفصل تجزیہ اور تبصرہ فرمایا۔ راقم السطور (ظفر معین بلے جعفری) نے جب اپنی یادوں کو قلم بند کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا تو انہی دنوں عالمی اخبار انگلینڈ (جس کے بانی مدیر اعلی ممتاز صحافی، براڈکاسٹر، ادیب اور قادر الکلام شاعر صفدر ہمدانی صاحب ہیں ) کے زیر اہتمام شائع ہونے والی نہایت عمدہ کتاب۔ سید فخرالدین بلے۔ بلے بلے کا مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے سید فخرالدین بلے صاحب کی شخصیت، فن اور خدمات کے حوالے سے تاثرات پر مشتمل اس کتاب سے ایک مختصر سا اقتباس نذر قارئین ہے ملاحظہ فرمائیے۔ ”سید فخرالدین بلے ایک قادر الکلام شاعر، خوبصورت نثر نگار اور اپنی ذات میں ایک انجمن، ایک قافلہ اور ایک تہذیبی ادارہ ہیں۔ علم و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

تلاش رزق ہو یا جستجوئے معرفت بلے
ہماری زندگی شعر و ادب یوں بھی ہے اور یوں بھی

اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اور کچھ حکمرانوں کے ساتھ ذاتی سطح پر قریبی مراسم ہونے کے باوجود اپنا کوئی مکان نہیں بنا سکے۔ دوران ملازمت سرکاری بنگلوں اور کوٹھیوں میں رہے اور پھر کرائے کے مکانوں میں زندگی اطمینان کے ساتھ گزاری۔ ہمیشہ ان کی زبان پر کلمۂ شکر رہا۔ اس صورت حال پر بھی ان کا اپنا ایک شعر ان کی مثبت سوچ کا پتا دیتا ہے۔

سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں، نہ سہی

بلے صاحب برائی کا بدلہ ہمیشہ بھلائی سے دیتے نظر آئے۔ دائیں ہاتھ سے مدد کریں تو اپنے بائیں ہاتھ کو پتا نہیں چلنے دیتے۔ خوبصورت محفلیں سجانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سید فخرالدین بلے پندرہ جرائد کے بانی ایڈیٹر اور ایڈیٹر بھی رہے ہیں لیکن اس کے باوجود خود نمائی سے ہمیشہ کوسوں دور دکھائی دیے۔ اختر حسین جعفری ان کے کمالات فن کے مداح تھے۔ ان کی دل میں اتر جانے والی نعت سن کر اہل محفل نے حفیظ تائب کی آنکھیں بھیگتی دیکھیں، ضمیر جعفری کو با آواز بلند سر بزم جے میں ویکھاں اوہندے ولے بلے بلے بلے کہتے سنا۔

فیض احمد فیض انہیں چھپا رستم کہتے تھے۔ اور وقت نے ان کے اس تبصرے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ ان کی تخلیقی شخصیت کے بہت سے رنگ دنیائے ادب پر شعروں کے معانی کی طرح رفتہ رفتہ کھلے۔ سید فخرالدین بلے صاحب کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ادب دوست ان کا ذکر عزت و احترام سے کرتے دکھائی دیے۔ اس لئے کہ وہ اپنے حلقہ یاراں کے دلوں میں آج بھی بسے ہوئے ہیں۔ سید فخرالدین بلے بے شک ادب و ثقافت کی متحرک شخصیت تھے ” ( احمد ندیم قاسمی )

(اقتباس از کتاب : سید فخرالدین بلے، بلے بلے )

جب احمد ندیم قاسمی نے سید فخرالدین بلے صاحب کے حوالے سے اپنی گفتگو کو سمیٹ لیا تو خالد احمد صاحب، محمد علی صاحب اور قبلہ کلیم عثمانی صاحب نے قاسمی صاحب سے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

کی فرمائش کردی جبکہ راقم السطور (ظفر معین بلے جعفری) نے شاہکار نظم ایک درخواست کی فرمائش کی اور موقف یہ اپنایا کہ وہ تو دعا ہے اور دعا سے پہلے کڑوا سچ ضروری ہے۔ شکر ہے کہ اجمل نیازی صاحب نے ہماری تائید فرمائی۔ قاسمی صاحب نے ہماری فرمائش پر اپنی شاہکار نظم ایک درخواست عطا فرمائی جو قارئین کی نذر ہے

نظم : ایک درخواست
نظم نگار : احمد ندیم قاسمی
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندان ایوان عقائد
اے ہنر مندان آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے
============================================================

نوٹ: قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ کی داستان کی اس قسط میں شامل تمام تر مصورانہ شاہکار ممتاز مصور جناب استاد گرامی پروفیسر آکاش مغل صاحب کے تخلیق کردہ ہیں کہ جو انہوں نے پاکستان کے ڈائمنڈ جوبلی جشن آزادی کے پرمسرت موقع پر قارئین ہم سب کے لیے بطور تحفہ عطا فرمائے ہیں۔ ہم پروفیسر آکاش مغل صاحب کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments