پنجاب میں حکومتی تبدیلی کے امکانات


پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی کے تجربات اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے تواتر کے ساتھ ان ہی غلطیوں کو یا ان میں اور زیادہ شدت پیدا کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں قو می سیاست میں سیاسی و جمہوری استحکام پر کئی اہم سوالات اٹھتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے سیاسی استحکام کے مقابلے میں عدم سیاسی و معاشی استحکام کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنا ہے تو سیاسی و ریاستی بحران سے کیسے نمٹا جا سکے گا۔

ہماری قومی سیاست کا ایک بڑا خاصہ سیاسی ایڈونچرز یا سیاسی مہم جوئی رہی ہے۔ سیاست دان ہوں یا پس پردہ کی قوتیں ہمارا محبوب مشغلہ اپنی مرضی اور خواہشات کی بنا پر حکومتوں کو بنانا اور گرانا ہوتا ہے۔ اس کھیل میں اگر ہمیں منفی سیاسی یا قانونی طرز عمل بھی اختیار کرنا پڑے تو ہم اس سے گریز نہیں کرتے۔ یعنی سیاست، جمہوریت اور حکومتوں کے خلاف سازش کا کھیل سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان آنکھ مچولی کے طور پر جاری رہتا ہے اور اس کھیل کی بھاری قیمت ملک کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

حالیہ دنوں میں کچھ ایسی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ پنجاب میں ایک بار پھر تبدیلی کا کھیل یا اس کا سیاسی دربار سجایا جا رہا ہے۔ اس کھیل کی خاص بات پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ اور مسلم لیگ نون کی حکومت کی بحالی سے جڑا ہوا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت واقعی اس وقت تیرہ جماعتی حکمران اتحاد اور بالخصوص مسلم لیگ نون یا شریف خاندان کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ پنجاب جسے ہم عمومی طور پر مسلم لیگ نون کی سیاست کا گڑھ سمجھتے ہیں وہاں ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی نئی سیاسی قوت بشمول اقتدار واقعی شریف خاندان یا مسلم لیگ نون کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

اسلام آباد تک محدود مسلم لیگ نون کی حکومت اور پنجاب کے اقتدار سے محرومی واقعی مسلم لیگ نون کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت چوہدری پرویز الہی جو وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں کہ مرہون منت ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو یہ گلہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کو دیوار سے لگادیا گیا تھا تو چوہدری پرویز الہی نے مسلم لیگ نون کے مقابلے میں تحریک انصاف کی کیونکر حمایت کی اور کیوں مسلم لیگ نون کی وزرات عالی کی پیش کش کو ٹھکرایا۔

مسلم لیگ نون کی سیاسی پریشانی یہ ہے کہ ایک طرف پنجاب میں ان کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسری طرف پنجاب میں نئے انتخابات کے تناظر میں ”پانی پت کی نئی جنگ“ میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا سیاسی مقابلہ کیسے کیا جا سکے گا۔ کیونکہ دونوں جماعتوں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی سیاست کا ایک بڑھ گڑھ پنجاب ہے اور یہ ہی پنجاب کا سیاسی میدان اگلے عام انتخابات کے نتائج کی صورت میں طے کرے گا کہ پنجاب کے حقیقی حکمرانی کس کے پاس ہوگی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون چاہتی ہے کہ فوری طور پر تحریک انصاف کا پنجاب میں اقتدار کا خاتمہ ہو اور یہاں دوبارہ مسلم لیگ نون کی حکومت بنے۔ کیونکہ عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ نون پنجاب میں دوبارہ اپنا اقتدار بحال کرنے کو ترجیح دے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب میں حکومت کی سیاسی تبدیلی کی افواہیں ایک بار پھر زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ اس کھیل میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو اہمیت دی جا رہی ہے اور وہی پنجاب میں سیاسی ڈیرے لگا کر عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے پاس تو اکثریت نہیں لیکن کیونکہ مسلم لیگ نون کا بڑا انحصار آصف زرداری پر ہے اور آصف زرداری یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس عمل میں ان کو اسٹیبلیشمنٹ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب میں حکومتی تبدیلی کا عملی طور پر اسکرپٹ کس نے لکھا ہے۔ کیونکہ پہلے بھی آصف زرداری اور مسلم لیگ نون نے یہ ہی تاثر دیا تھا کہ ہمیں اس کھیل میں پس پردہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے، مگر عملی طور پر وہ اپنی حکومت نہیں بچا سکے تھے۔

مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پس پردہ قوتوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ عمران خان کو کمزور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت کو ختم کیا جائے اور یہاں مسلم لیگ نون کی حکومت ہو۔ کیونکہ حکمران جماعت کا بڑا چیلنج عمران خان کی سیاسی مقبولیت ہے اور ان کو لگتا ہے کہ فی الحال ان کی سیاسی مقبولیت کا مقابلہ سیاسی میدان میں ممکن نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کو اقتدا ر کی سیاست سے باہر نکالا جائے تاکہ ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کیا جا سکے۔

ایک منطق چوہدری شجاعت حسین کی دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے دس ارکان پر نا اہلی کا خوف ڈال کر ان سے پی ٹی آئی کی حمایت واپس لینا چاہتے ہیں۔ منطق یہ بھی دی جا رہی ہے کہ دس ارکان کے چوہدری شجاعت اور مسلم لیگ نون سے رابطے ہیں اور وہ اہم موقع پر چوہدری پرویز الہی کی حمایت چھوڑ سکتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ خود تحریک انصاف میں سے کچھ لوگوں کو مختلف نوعیت کے لالچ دے کر اپنے قریب لانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

اسی کھیل میں گنتی پوری ہونے پر گورنر پنجاب چوہدری پرویز الہی کو اسمبلی سے ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔ جب ان کی عددی تعداد پوری نہیں ہوگی تو تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہو گا۔ آصف زرداری کی یہ تجویز بھی گردش کر رہی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کو یہ آفر بھی دی گئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ نون کی حمایت کریں تو وہ ہی وزیر اعلی پنجاب ہوں گے ۔ ان ہی خدشات کی بنیاد پر خود عمران خان کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں ان کی حکومت کو ختم کرنے کے کھیل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ سیاسی پنڈت بھی یہ خبریں دے رہے ہیں کہ پنجاب میں تبدیلی کے کھیل کا سیاسی دربار سج گیا ہے اور ایک بار پھر مسلم لیگ نون کی حکومت کے آنے کے امکانات موجود ہیں۔

چوہدری پرویز الہی کے دو مسئلہ ہیں۔ اول وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ نون یا شریف خاندان پر بہت زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا اور اس کے پیچھے ماضی کے تجربات اور واقعات ہیں۔ دوئم پرویز الہی کے مقابلے میں ان کے بیٹے یا سیاسی جانشین چوہدری مونس الہی بضد ہیں کہ ہم نے مستقبل کی سیاست عمران خان کی حمایت کے ساتھ ہی کرنی ہے اور اس کا اعتراف خود چوہدری پرویز الہی بھی کرچکے ہیں کہ ان کی پی ٹی آئی کی حمایت میں ان کے بیٹے کا اہم کردار ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود چوہدری پرویز الہی کے اپنے بھی اسٹیبلیشمنٹ سے اچھے تعلقات ہیں تو وہ ان کی حکومت کو کیوں ختم کرنا چاہے گی۔ چوہدری پرویز الہی اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کی حمایت سے کافی بہتر پوزیشن میں ہیں اور یہ پوزیشن ان کو مسلم لیگ نون میں نہیں مل سکے گی۔ اس لیے یہ جو بھی منطق دی جا رہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت چھوڑ کر مسلم لیگ نون کا حصہ بن سکتے ہیں درست تجزیہ نہیں ہو گا۔ اسٹیبلیشمنٹ کو تو پرویز الہی حکومت اس لیے بھی سوٹ کرتی ہے کہ اس میں براہ راست پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون نہیں اور دونوں جماعتوں کا بڑا انحصار چوہدری پرویز الہی پر ہی ہے۔

یہ کہنا کہ مسلم لیگ ق میں چوہدری پرویز الہی کی سیاسی گرفت کمزور ہے ممکن نہیں پارٹی پر عملی کنٹرول چوہدری پرویز الہی کا ہی ہے اور دوسری طرف چوہدری شجاعت، طارق بشیر چیمہ اور سالک حسین ہی ہیں۔ اس لیے پارٹی کی سطح پر بھی بڑی تنہائی کا سامنا چوہدری شجاعت حسین کو ہی ہے۔ اگر واقعی پنجاب میں کوئی تبدیلی آنی ہے تو یہ یقینی طور پر یہ اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم نے رجیم چینج کے نام پر جو بھی سیاسی دربار سجایا اور جو کھیل کھیلا گیا اس کے نتائج بھی قومی سیاست میں منفی طور پر سامنے آئے ہیں۔

اس سیاسی مہم جوئی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت قومی سیاست انتشار اور خلفشار کا شکار ہے اور ہمارا بحران حل ہونے کی بجائے مسلسل خراب ہو رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پنجاب میں تبدیلی کی صورت میں کوئی حالات بہتر ہوں گے وہ غلطی پر ہیں۔ یہ مہم جوئی ملک کے سیاسی حالات کو اور زیادہ بگاڑ کی طرف لے کر جائے گی اور اس کے نتیجہ میں صوبہ مزید محاذ آرائی کی شکار ہو گا اور اس کا براہ راست اثر سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بدحال ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments