چیف جسٹس کے خطاب نے مایوس کیا


کہتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر عزیز ہم وطنوں کا ایک ملک تھا۔ اس کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمے پڑے رہتے تھے۔ گستاخ قسم کے مقدمے بازوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ دو دو سال تاریخ نہیں نکلتی۔ بے گناہ جیلوں میں بند پڑے پڑے مر جاتے تھے پر ججوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی تھی۔ اگر کبھی کبھار جوں رینگنے کی کوشش کرے تو جوں کو رینگنے سے روکنے کے لیے منصف اعلی ڈیم شیم بنانے شروع کر دیتے تھے یا سوموٹو کے ذریعے جوؤں کے پیر میں رسی ڈال دیتے تھے۔

ہو سکتا ہے کہ ایسی مثالیں عزیز ہم وطنوں کے ملک کے علاوہ بھی کہیں سے مل سکیں پر وہاں ایک مثال ایسی بھی تھی جس کی مثل دنیا سے ممکن نہیں تھی۔ وہ یہ کہ ایک بار قتل کے ملزم مجرم بنا کر پھانسی لٹکا دیے جانے کے کافی دیر بعد عالیہ نے مرحومین کی بے گناہی کا اعلان فرما دیا تھا۔ کسی شاعر کو عالیہ کی اس دیر کی خبر لگ گئی شاید اس لیے اس نے کہا تھا ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“

شاعر مسکین نے قہر درویش بر جان درویش کے مصداق سوموٹو سے ڈرتے ہوئے تم کے بجائے میں کہہ دیا تھا۔

حالات یہاں تک پہنچے کہ اندر کہ وہ لوگ جن کے اندر زندہ تھے وہ بول پڑے کہ ”چیف کے خطاب نے مایوس کیا ہے“ ۔ ایسے میں کچھ عوام دوست لوگوں نے مشورے دیا کہ عوام کے عدالتی مسئلوں کو حل کرنے کے لیے بالکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹروں کو پارٹ ٹائم پرائیویٹ کلینک بنانے کی اجازت ہے اسی طرح ججوں کو بھی انصاف کلینک بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

مشورے پر عمل درآمد کرنے کے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہو  گئے۔ اپنی مدد آپ کے تحت بیشمار نئی عدالتیں کھل گئیں، پینڈنگ کیس نئی عدالتوں کو تقسیم ہوئے اور پینڈنگ ایک دم لاکھوں سے ہزاروں میں تبدیل ہو گئے۔ اب وہاں کی صورت حال یہ ہوئی کہ جو جج اپنی سرکاری ڈیوٹی میں سائل کو صبح بلا کر شام چار بجے تاریخ دیتے تھے انہوں نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ جن کو تاریخ دینی ہوتی ہے ان کو پہلے بلارے پر تاریخ دے دیا کرو تاکہ ہم ایک بجے تک کام سمیٹ کے پرائیویٹ انصاف کلینک پہنچ سکیں۔ ایسا کرنے سے شام چار بجے تاریخ لینے والوں کا عذاب آدھا رہ گیا۔

اب جج اپنے دفتر سے انصاف کلینک کے لیے نکلتے تو حسب روایت سرکاری ذمہ داری کی وجہ سے بڑے غصے میں ہوتے تھے اور کوشش شروع کر دیتے کہ انصاف کلینک پہنچنے سے پہلے اپنے موڈ کو نارمل کر لیا جائے تاکہ سائلوں پر اچھا اثر پڑے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی جج صاحب منہ پر گیلا رومال مارنا شروع کر دیتے تاکہ انصاف کلینک پر موجود سائلوں کو فریش فریش لگوں۔ کلینک پہنچ کر جج صاحب مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوتے۔ اندر داخل ہوتے ہی سائلوں والے ہال میں جاتے، بلند آواز سے سلام علیکم کرتے اور مزاج پوچھتے۔

اگر کوئی عورت بچے سمیت بیٹھی ہو تو اس کے بچے کے گال پر انگلی سے چھیڑتے اور ساتھ پپی کرنے جیسا منہ بھی بنا کر کہتے “آپ کا بچہ بہت پیارا ہے”۔ بی بی سائلہ کو مخاطب کر کے فرماتے ”آپ کا بچہ چھوٹا ہے آپ روز روز نہ آیا کریں جس دن ضرورت ہو گی میں آپ کو بلا لوں گا۔ آپ سب کا شکریہ کہ آپ نے عدل کے لیے ہمارے کلینک کا انتخاب کیا۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ یہاں پر نہ صرف انصاف ہو بلکہ آپ کو انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ انشاء اللہ ہمارے فیصلے قانون کے مطابق ہوں گے، میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ فیصلے ضمیر کے مطابق نہیں کروں گا۔ ہمارے فیصلے اتنے شفاف ہوں گے کہ آپ کوشش بھی کریں تو آپ ہماری عدالت کو کینگرو کورٹ یا نظریہ ضرورت جیسی پھبتیوں کی زد میں نہیں لا سکیں گے۔”

پھر جج صاحب مسکراتے ہوئے پوچھتے ”اگر آپ سب اجازت دیں تو میں پہلے خواتین سائلوں کو فارغ کر لوں“  سائلوں میں سے کوئی ٹھرکی قسم کا سائل زور سے کہتا ”جی بالکل، لیڈیز فرسٹ“ ۔

جج صاحب دفتری کو حکم دیتے کہ بیگم صاحبہ کا نمبر لے لو، ساتھ یہ بھی فرماتے کہ ”تم نے انتظار گاہ کا اے سی تیز کیوں نہیں چلایا، تمہیں پتہ نہیں، گرمی ہے، لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، پانی میں برف ڈالی ہوئی ہے کہ نہیں؟

جی ڈالی ہوئی ہے
شاباش۔

دفتری کو اندر بلا کے کہتے ”ان کا دھیان رکھا کرو، اگر یہ اپنا کیس کسی اور جج کے پاس لے گئے تو ہماری بے عزتی بھی ہو گی اور آمدن پر منفی اثر پڑے گا“ ۔ اور خبردار کسی کی فائل گم نہیں ہونے دینی اور اگر گم ہو جائے تو سائل کے وکیل سے فائل لے کر نئی تیار کر لینا، اس بات کا کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے، تمہیں پتہ ہے نا فائل گم ہونے سے عدالت کی بے عزتی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ سائل سے کسی بھی مد میں پیسے نہیں لینے، تاریخ دینے کے اور نہ جلدی فارغ کرنے کے۔

اس کے بعد جج صاحب عدالتی کرسی سنبھالتے اور بلارے والے سے کہتے ہیں کہ ساری خواتین کو ایک ساتھ اندر بلا لو۔

خواتین اندر آ جاتی ہیں

جج صاحب مسکراتے ہوئے فرماتے، بیٹھیں بیٹھیں۔ باری باری ان کے مقدمے سنتے اور کہتے جاتے کہ اگلی تاریخ پر کسی بھی وقت آ کر اپنا اپنا فیصلہ لے جانا، اگر آپ میں سے کوئی مصروف ہو تو بتا دے ہم ہوم سروس بالکل مفت فراہم کرتے ہیں۔ فیصلے میں آج شام کو ہی لکھ دوں گا۔ اب آپ تشریف لے جا سکتی ہیں۔ باہر گرمی ہے، واٹر کولر سے پانی پیتے جانا۔

کلرک سے کہتے ان کو جلدی کی تاریخ دو، ساتھ بتاتے ہیں کہ ”مذہب میں حکم ہے انصاف جلدی فراہم کرنا چاہیے“ اور یہ بھی ہے کہ ”جو قومیں انصاف نہیں کرتیں وہ تباہ ہو جاتیں ہیں“ ۔ ساتھ کوئی بات برطانوی وزیر اعظم چرچل کی بھی کرتے ہیں۔

بلارے والا اگلا سائل بلاتا۔ جب سائل اندر داخل ہوتا تو دیکھتا کہ جج صاحب سائل کی کرسی سیدھی فرما رہے تھے۔ سائل کے اندر آتے ہی جج صاحب مسکرا کر ویل کم کہتے اور کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ۔

کیا کیس ہے، آپ کا؟ تسلی سے بتائیں، میں یہاں آپ ہی کی خدمت کے لیے بیٹھا ہوں، عدالت میں آ کے پانی شانی پیا ہے، چائے تو نہیں پی ہو گی، جج خود ہی اٹھ کے تھرمس سے چائے ڈال کے سائل کے آگے یہ کہہ کر رکھ دیتا ہے کہ آپ چائے لیں میں آپ کی فائل پڑھتا ہوں۔

سائل کے چائے پیتے پیتے جج صاحب فرماتے، میں نے آپ کا کیس پڑھ لیا ہے، آپ تسلی سے گھر جائیں، بچوں کو میری طرف سے پیار دینا، کیس کا فیصلہ انشاء اللہ آپ کے حق میں ہو گا۔

آپ بتائیں اگر ہمارے ملک میں بھی عزیز ہم وطنوں کے ملک کی طرح ہو جائے تو کیسا رہے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments