میں بھی سقراط ہوں


حقیقت پسندی اور انصاف پسندی، یعنی حق گوئی کی پاداش میں کیا مجھے میں بھی ”زہر کا پیالہ“ پینا ہو گا۔ جیسا کہ قبل مسیح کے عہد میں ایک یونانی سنگ تراش کے بیٹے عظیم فلسفی سقراط نے زہر کا پیالہ نوش کیا تھا۔ افلاطون، ارسطیفوس، الکبیدش اور اینتی شینز جیسے عظیم فلسفیوں کے لیے استاد اعظم کا درجہ رکھنے والے سقراط نے یوں تو بہت سے اچھوتے تصورات اور خیالات دنیا کے سامنے پیش کیے لیکن ان کے نظریات میں انصاف پسندی اور سچائی، یعنی حق گوئی کو بنیادی حیثیت حاصل تھی جبکہ ان کے فلسفہ کی بنیاد یعنی علمیت کا محور یہ تھا کہ ”میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا“ ۔

ایسا ہے کہ یہی منقولہ سقراط کی سوچ اور فکر کا مقدمہ ہے۔ یونان کے فرسودہ نظام اور روایات کے منکر سقراط کو ایتھنز کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے سقراط کو یونان کی سماجی و قانونی روایات کے مطابق ”پائزن آف ہام لاک“ نامی زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگانا پڑا، اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف امر ہو گیا بلکہ ”سچائی اور عدل“ کا استعارہ بن گیا۔

جہاں تک سقراط کی تخلیقی صلاحیتوں کی بات ہے تو اس کا اندازہ محض ایک اس واقعہ سے لگایا جاتا ہے ایک بار وہ اپنے طالب علمی کے زمانے کے ساتھی کے ساتھ غالباً اس کا نام کرائیٹو تھا کہ ساتھ کہیں سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ”کمہار“ اپنے چاک پر نرم اور چکنی مٹی کا ایک پیڑا اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھ کر اسے تیزی سے گھما رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مٹی کا پیڑا ایک دلکش مرتبان میں ڈھل گیا، ایک لمحے کی حیرانی اور سوچ کے بعد سقراط بول اٹھا کہ یہ مرتبان کمہار کے ذہن میں تھا جو اس کے ہاتھوں کے ہنر سے منتقل ہو کر اس چاک پر آ گیا۔

یعنی سقراط نے اپنی سوچ کا یہ ماخذ اخذ کیا کہ کوئی بھی مادی چیز جیسے مکان، کرسی یا مجسمہ یا کوئی تصویر یہ پہلے انسان کے ذہن میں آتی ہے، پھر انسان اپنے ذہن کے اس نقشے کو مادی شکل میں ڈھالتا ہے۔ سقراط کے اس ماخذ کو ہم انسانی سوچ، یعنی فن اور تخلیق کے حوالے سے ایک غیر معمولی دریافت کہہ سکتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یونان کے عظیم فلسفی اور استاد اعظم سقراط نے جو جھیلا، پرکھا اور کہا اسے بعد کے انسانوں نے تو سمجھا لیکن آج کے سماج میں اسے ایک بار پھر اسی انداز سے نظر انداز کیا جا رہا ہے جیسا کہ ایتھنز (یونانی شہر) میں کیا گیا تھا۔

نظریات یک دم تخلیق نہیں پاتے اس کے پیچھے سوچ در سوچ کا ایک ایسا تسلسل کارفرما ہوتا ہے جو یقینا ریاضت کی نہج اخروی ہوتی ہوگی، پھر اسے پرکھا اور جھیلا جاتا ہے، تب جاکر نظریہ تخلیق پاتا ہے۔ یہاں یہ عالم ہے کہ محض خیال بلکہ یوں کہیے کہ محض خام خیالی کی بنیاد پر ایسے ایسے بیانیے تشکیل دیے جاتے ہیں جو اپنا حدود اربعہ رکھنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے میں المیہ یہ بھی ہے کہ ناپختہ خیالات کو سماج پر تھوپنے کے لیے رہنما ہی نہیں بلکہ ہجوم بھی دستیاب ہوتا ہے۔

پاکستانی سماج جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے قیادت کے فقدان سے دوچار ہے، یا پھر ایسا ہے کہ یہاں قیادت کو پنپنے ہی نہیں دیا جاتا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دھرتی بانجھ ہو چکی ہے جو قیادت کو جنم دینے سے قاصر ہے۔ ایسے میں ستم بالائے ستم یہ ہے کہ سماج میں حقیقت پسندی اور انصاف پسندی، یعنی حق گوئی کو ایک عظیم جرم سمجھا جاتا ہے۔ خوشامدی ٹولہ اور جی حضوری کی جگالی کرنے والوں کو اعلیٰ مقام عطا کیے جاتے ہیں۔

ہم کس طرف بڑھ رہے اور سماج کس میں رنگ میں ڈھل رہا ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہمارے ایک فلسفی دوست پاکستانی سیاست اور اس کے چلن پر اپنے جی کو خوب جلا رہے ہوتے ہیں، بات یہیں تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن وہ ”مرض سقراط“ میں بھی مبتلا ہیں، یعنی وہ حقیقت پسندی اور انصاف پسندی کے داعی ہیں، اپنی اسی حق گوئی کی وجہ سے وہ عموماً سماجی آزمائشوں سے دوچار رہتے ہیں۔ اصولوں کے نام پر خود کو اس قدر اذیت دیتے ہیں کہ اب اسے اس ”خود اذیتی“ سے راحت ملنے لگی ہے، اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ اس خود اذیتی کا علاج بس یہی ہے کہ مجھے بھی زہر کا پیالہ دے دیا جائے اور میں بھی عظیم فلسفی سقراط کی طرح اس جھوٹی دنیا اور دروغ گوئی کے سماج کو ٹھکرا کر موت کو گلے لگاؤں۔

ایسے میں ہمارے ایک سینئر ساتھی نے فلسفی دوست کے سامنے یہ تجویز رکھی ”یار تم زہر کا پیالہ کیوں پیتے ہو، اگر ہم تم کو زہر کا پیالہ پیے بغیر ہی سقراط کہنا شروع کر دیں تو کیسا رہے گا“ ۔ ایسے میں ایک دوست نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ”جانی ایسا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہم بھی ایتھنز والوں کی طرح کسی سقراط کو کھودیں“ ۔ ابھی دوستوں کی طرف سے دلائل اور تاویلیں پیش کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ فلسفی دوست نے کہا کہ میں ”ہاں میں سقراط ہوں“ ۔ اور یہ اشعار پڑھے :

آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینہ میں بغاوت کی خلش زندہ ہے

بس پاکستانی سماج اور سیاسی چلن کی بھی یہی کہانی ہے کہ چند دوستوں نے کہا کہ آپ عظیم لیڈر ہیں اور آپ ہی قوم کے نجات دہندہ اور مسیحا بن سکتے ہیں، تو پھر کیا ہوتا ہے کہ وہ خود کو لیڈر سمجھ کر آگے بڑھتا ہے اور خود کو نجات دہندہ اور مسیحا ثابت کرنے پر لگ پڑتا ہے جبکہ نظریات اور ویژن کے معاملے اس کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ ذہن بھی خالی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments