جب ایک لڑکی کا فگر اچھا نہ ہو تو؟


” یار اس لڑکی سے کیا شادی کرنی ہے، اس کا تو فگر ہی نہیں ہے۔ ایک دم فلیٹ ہے بھائی۔ ایک دم فلیٹ“ یہ الفاظ کوئی بھی نوجوان کسی بھی چوراہے پر کھڑا ہو کر دوستوں کے ساتھ بے دھڑک کہہ دیتا ہے۔ دوست ہاں میں ہاں ملا کر قہقہے بلند کرتے ہیں۔ پھر جگت بازی کا ایک سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ خود بے شک جو بھی ہوں جیسے بھی ہوں مگر یہاں لڑکی کے ایسے ایسے نام رکھے جائیں گے کہ بندہ سن کر کانوں کو ہاتھ لگائیں۔

اب دوسری طرف لڑکیوں کا ایک ٹولہ یونیورسٹی میں اکٹھے بیٹھ کر اس لڑکی کا مذاق اڑائیں گی کہ کھٹی املی کھایا کرو۔ یہ کرو وہ کرو۔ وہ لڑکی چپ چاپ ان کے ساتھ ہنس دیتی ہے۔ گھر لوٹتی ہے تو مسلسل دماغ میں یہ خیال کھٹک رہا ہوتا ہے۔ بے سدھ بیڈ پر گر جاتی ہے۔ اس کے آنسو آنکھوں سے اتر کر چہرے سے ہوتے ہوئے دھیرے دھیرے چادر میں کہیں سما جاتے ہیں۔

مذاق اڑانا اور کسی کی محبت کو اس بنیاد پر ٹکرا دینا کہ یار اس کا فگر اچھا نہیں، کتنا آسان ہے نا۔ اسے اس بات پر ریجیکٹ کرنا جو اس کے اختیار میں تھی ہی نہیں۔ پھر کھلے عام اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ دینا، کہاں کی اخلاقیات ہیں بھئی؟

کبھی ہم نے اس لڑکی سے پوچھا کہ اس پر کیا بیت رہی ہوگی؟ وہ کیا سوچتی ہے؟ وہ کیسا محسوس کرتی ہوگی جب اس طرح کی باتیں اس کے کانوں سے روزانہ کی بنیاد پر ٹکراتی ہوں گیں۔ پھر جب اسے اس بات کا معلوم ہوتا ہو گا کہ اس کا اچھا فگر نہ ہونے کی وجہ سے اسے ریجیکٹ کر دیا گیا ہے۔

جب کبھی اس نے کسی سے اظہار۔ محبت کیا ہو گا اور بدلے میں یہ بات کہیں سے گھومتی ہوئی ملی ہو گی، اس پر کیا قیامت گزری ہوگی؟ کیا کسی نے لمحے بھر کے لیے سوچا ہے؟ ہم کیونکر سوچیں گے یار ہم لڑکے جو ہوئیں۔ ہمیں معاشرے کی طرف سے اختیار جو دیا گیا ہے کہ یوں انگلی گھماتے ہوئے کسی لڑکی کو سلیکٹ کر لیا گیا اور ہوں انگلی گھماتے ہوئے کسی کو پلک جھپکتے ہی ریجیکٹ کر دیا گیا۔

کبھی ریجیکٹڈ لڑکی سے پوچھا ہے کہ اس کی زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ اس کے رشتے دار اسے کیسے طعنے مارتے ہوں گے کہ اسے تو اس نے اس بات پر ٹھکرا دیا تھا۔ ہم ایک ریجیکٹڈ لڑکی سے اب رشتہ کیوں کر جوڑیں گے؟ پھر اس پر ریجیکٹڈ کا لیبل تا عمر ایسا لگتا ہے کہ وہ جو کچھ مرضی کر لیں، اب وہ نہیں ہٹنے والا۔

انسان ایک مکمل پیکج کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ اگر آپ کو کسی کی کوئی چیز پسند نہیں بھی آئی تو بھئی چوراہے پر کھڑے کر دوستوں کے ساتھ اس بات کا واویلا کرنا ضروری ہے کیا؟ اور اگر وہ تمہیں اتنی ہی اچھی نہیں لگتی تھی تو پھر اس سے تعلق کیوں رکھا؟ اب جب بات شادی تک آن پہنچی ہے تو تم سرعام کہہ رہے ہو کہ اس کا تو فگر ہی نہیں ہے۔ میں شادی کیوں کروں؟

منہ اٹھائے آتے ہیں اور کسی لڑکی کے ساتھ ریلیشن شپ رکھ کر آخر میں اسے اس بات پر ریجیکٹ کر کے ساری عمر ریجیکٹڈ کا طوق اس کے گلے میں ڈال کر خود آگے موو آن کر جاتے ہیں۔ اب ذرا واپس آئیے اس لڑکی کی طرف۔

اس سارے واقعے میں اس لڑکی کا کیا قصور؟ جس پر ریجیکٹڈ کا لیبل لگا۔ اس لیبل تلے نہ جانے کتنے لوگ کتنی باتیں بنائیں گے۔ طرح طرح کے بہتان اس کی ذات سے جوڑے جائیں گے۔ کہیں بھی رشتہ ہوتے وقت جو باتیں سننی کو ملے گی وہ الگ۔

کل ملا کر بات یہ ہے کہ اگر بعد میں ہی جا کر آپ نے کسی لڑکی کو اس بات پر ریجیکٹ کرنا ہے تو شروع ہی سے بات کو اس قدر نہ بڑھایا جائے۔ کسی کو ریجیکٹ کر کے ریجیکٹڈ کا لیبل لگانا بڑا آسان ہوتا ہے۔ مگر کبھی اس لڑکی سے پوچھنا کہ اس لیبل کو اتارنا اس کے لیے کتنا دشوار کن ہوتا ہے۔ اب تو یہ ہمارے معاشرے کا المیہ بن چکا ہے کہ کئی لڑکے لڑکیوں پر فقرے تو کستے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ انھیں استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس پر مجھے حمیدہ شاہین صاحبہ کا ایک شعر ذہن میں آ گیا، جو ساری بات کو ایک کوزے میں بند کر دے گا۔ آپ لکھتی ہیں کہ

چھونے کے بھی اصول ہیں، ہر شاخ کو نہ چھو
چھدرے تو منتظر ہیں، گھنے مت خراب کر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments