غداری کی قرارداد اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے


پنجاب اسمبلی میں وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف آئین کی دفعات 5 اور 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی سفارش کے باوجود پاکستانی رہنما پورے طمطراق سے اس وقت نیویارک میں موجود ہیں جہاں وہ جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس خطاب میں وہ اقوام عالم کو پاکستان میں موسمی تبدیلی سے ہونے والی تباہی کی کہانی سنائیں گے۔

اس بارے میں محض قیاس آرائی ہی کی جا سکتی ہے کہ شہباز شریف پاکستان کی کہانی کتنے پردرد انداز میں سنا پاتے ہیں ان کی پر اثر تقریر کے نتیجے میں سخت دل عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک کے دل کس حد تک پسیجتے ہیں۔ لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی میں اپنے ہی وزیر اعظم پر آئین شکنی اور غداری جیسے سنگین الزامات عائد کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نیویارک جانے والے پاکستانی حکومتی وفد کو نہ تو عوام کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی صوبوں میں انہیں اپنا نمائندہ مانا جاتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں یہ قرارداد کسی عام رکن کی بجائے وزیر پارلیمانی امور راجہ بشارت نے پیش کی اور اعلان کیا کہ اس قرارداد کی منظوری کے بعد پنجاب حکومت وزیر اعظم کے خلاف مناسب قانونی کارروائی بھی کرے گی۔

یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ پنجاب حکومت کو یہ قرار داد منظور کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور کیا اس قسم کی سیاسی شعبدہ بازی کے سفارتی اثرات کا اندازہ بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اس قرار داد کے ذریعے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت درحقیقت پوری دنیا کو یہ پیغام بھیجنا چاہتی ہے کہ شہباز شریف ایک ’جھوٹا اور جعلی وزیر اعظم ہے‘ جسے کوئی قانونی اور آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔ یہ اقدام جان بوجھ کر ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب شہباز شریف اقوام متحدہ میں موجود ہیں اور عالمی لیڈروں سے ملاقاتوں میں پاکستان کے لئے امداد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ وزیر اعظم اپنے دعوے کے مطابق اہم ترین وزرا کے ہمراہ اقوم متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے گئے ہیں اور اہم عالمی لیڈروں اور اداروں کے سربراہان سے ملاقاتوں میں ملکی معیشت پر پڑنے والے غیر معمولی بوجھ میں ہاتھ بٹانے کی درخواست کریں گے۔

حکومت پاکستان اس وقت اقوام عالم کے سامنے یہ مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب اور تباہی کی اصل ذمہ داری ان اقوام پر عائد ہوتی ہے جو کاربن کے اخراج میں سر فہرست ہیں اور جن کی صنعتی دوڑ کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اسی موسمی تبدیلی سے پاکستانی پہاڑوں پر موجود گلیشیئر پگھلنے لگے ہیں اور غیر معمولی سیلاب کی صورت میں شدید جانی، مالی اور انفرا اسٹرکچر کے نقصان کا سبب بنے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس نے پاکستان کے دورہ کے دوران اس حوالے سے بات کی تھی اور ماحولیات کے لئے کام کرنے والے متعدد عالمی ادارے بھی اعداد و شمار کے ذریعے اس طرف اشارے کر رہے ہیں۔ اس موقف کے مطابق پاکستان کسی قصور کے بغیر اس تباہی کا نشانہ بنا ہے۔ اس کے پاس پہلے ہی وسائل کی کمی ہے اور وہ اپنی معیشت میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس ناگہانی آفت نے اسے ایک نئے اور طویل المدت چیلنج کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اسی موقف کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی طرح عالمی توجہ کا مرکز بننے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ پاکستان کو تعمیر نو اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لئے وسائل فراہم ہو سکیں۔ آئی ایم ایف اور ایشیا ترقیاتی بنک نے اس بارے میں مثبت اشارے بھی دیے ہیں۔ دیگر دوست ممالک کی طرف سے بھی مالی تعاون کی امید کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب نے چند روز پہلے ہی اسٹیٹ بنک میں روپیہ مستحکم کرنے کی غرض سے رکھوائے ہوئے 3 ارب ڈالر کی واپسی مزید ایک سال کے لئے مؤخر کردی ہے۔ کچھ دوسرے ممالک سے بھی سرمایہ کاری کے اشارے دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں تباہ ہونے والے علاقوں میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جو پنجاب یا خیبر پختون خوا میں واقع ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ گویا اگر عالمی سطح پر پاکستان کی اپیل پر غور ہوتا ہے اور تعمیر نو کے لئے وسائل فراہم ہوتے ہیں تو وہ ان علاقوں میں بھی صرف ہوں گے جہاں پر آباد کاری اور عوام کو سہولت پہنچانے کی قانونی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہے۔ اس کے علاوہ اس قدرتی آفت سے ملک کا ایک تہائی رقبہ زیر آب ہے، نصف سے زائد فصلیں تباہ ہوئی ہیں جس سے فوڈ سیکورٹی کو شدید خطرہ لاحق ہے اور کئی لاکھ مویشی ہلاک ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں خاندانوں کا روزگار تو متاثر ہو گا ہی لیکن اس ایک نقصان سے ملک کے غذائی بحران میں اضافہ بھی ہو گا۔ ملک کی ساڑھے تین کروڑ آبادی اس سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔ سیلاب کا زور کم ہونے کے بعد جب ان میں سے بیشتر لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو انہیں از سر نو اپنی زندگی کا آغاز کرنا پڑے گا۔

تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کی دعوے دار ہے۔ عمران خان نے ’حقیقی آزادی‘ کے جعلی نعرے کی بنیاد پر پنجاب کے غیر متاثرہ علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر بڑے بڑے جلسے منعقد کر کے اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن نہ تو وہ کسی سیلاب زدہ علاقے میں دیکھے گئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے یہ ضرورت محسوس کی ہے کہ امدادی کام کے لئے ٹیلی تھون کا ڈھونگ کرنے کی بجائے، ان جلسوں کے انعقاد پر صرف ہونے والے اربوں روپوں کو احتجاجی ریلیوں کی بجائے ضرورت مند اہل وطن کی مدد کے لئے استعمال کرنے کا اہتمام کرتے۔ انہیں اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کیا انہیں سیلاب سے براہ راست متاثر ہونے والے ساڑھے تین کروڑ شہریوں کے ووٹ درکار نہیں ہیں یا ان کے خیال میں ان لوگوں میں تحریک انصاف کے ہمدرد ہی موجود نہیں۔ اس لئے کیوں وہ ان پر اپنا وقت اور پارٹی یا حکومتوں کے وسائل صرف کریں؟ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے پر جوش لیڈر کا یہ رویہ بچگانہ اور خود غرضانہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔

اس پر مستزاد یہ کہ ایک تو خود تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں سیلاب زدگان کے حوالے سے غیر فعال رہی ہیں دوسرے وفاقی حکومت کو ’چوروں اور جرائم پیشہ افراد‘ کی حکومت قرار دے کر اس کے خلاف قومی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے شوکت ترین کے ذریعے پنجاب اور کے پی کی حکومتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر سفارتی کامیابی کے لئے قومی یک جہتی کی ضرورت تھی، تحریک انصاف ان مقاصد کو ناکام بنانے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں شہباز شریف کے خلاف قرارداد کا یہی ایک مقصد ہے۔

عمران خان کی سرکردگی میں اگر اپوزیشن شدید غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف بھی ایک ایسے وقت میں ایک کے بعد دوسرے ملک کے دورہ پر جا رہے ہیں جب کہ متاثرین کے لئے ان کی موجودگی ضروری ہے۔ تاکہ یقین ہو کہ سربراہ حکومت امداد کی ترسیل اور عوامی ضرورتیں پورا کرنے کے انتظامات کی نگرانی کا فرض ادا کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت پہلے ہی صوبوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کر رہی ہے اور اسے محض اسلام آباد تک محدود حکومت کہا جاتا ہے۔ دوسرے فیصلے کرنے میں تاخیر اور بے یقینی کی مسلسل کیفیت سے بھی مرکزی حکومت کی اتھارٹی پر سوال سامنے آتے ہیں۔

ملک اس وقت تاریخ کی بدترین تباہی کا سامنا کر رہا ہے لیکن ملک کا وزیر اعظم ایک وسیع و عریض وفد کے ہمراہ بیرونی دوروں پر روانہ ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں وزیر اعظم کو دس روز سے زائد مدت تک کے لئے ملک سے باہر رہنے کی بجائے عوام کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ تاکہ جن اداروں اور ممالک سے امداد مانگی جا رہی ہے، انہیں بھی وزیر اعظم کی خلوص نیت کا یقین ہو سکتا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو یا ملکہ الزبتھ کی آخری رسومات یا اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خطاب، ان سب مواقع پر نمائندگی کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم کا موجود ہونا ضروری نہیں تھا۔ حقیقی لیڈر مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے ہمراہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہباز شریف ایک کے بعد دوسرے بہانے پاکستان سے دور رہ کر سربراہ حکومت کے پروٹوکول سے ضرور لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن اس عہدے کی وجہ سے عوام کی طرف سے ان پر جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، انہیں پورا کرنے میں مسلسل ناکام ہیں۔

شہباز شریف کو باور کہنا چاہیے کہ ملک میں اس وقت بے یقینی کی جو کیفیت موجود ہے، اسے وہ اپنی کارکردگی اور بہتر حکومتی نتائج سے ہی دور کر سکتے ہیں۔ اب نہیں تو سال بھر بعد مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کو انتخابات کی طرف جانا ہو گا۔ ایک طرف عمران خان عوام میں بداعتمادی اور بے یقینی پیدا کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف شہباز شریف ابھی تک کسی ایسے لیڈر کا تاثر قائم کرنے میں ناکام ہیں جسے حالات پر کنٹرول ہے اور جو فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ نواز شریف ضرور ان کے بڑے بھائی اور پارٹی کے اہم لیڈر ہیں لیکن ان کی رہنمائی کے لئے لندن جانے کی حیلہ سازی سے شہباز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں اور حکومتی کارکردگی کے بارے میں سنگین سوال سامنے آتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل نہ تو مختصر مدت میں آسانی سے حل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی شہباز شریف تن تنہا کوئی معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ تاہم یہ امر ضرور پریشان کن ہے کہ وہ ذمہ دار لیڈر اور سربراہ حکومت کا تاثر قائم کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے یہ صورت حال انتخابات میں عمران خان کی مہم جوئی سے بھی زیادہ دشواری پیدا کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments