ایکس وائی زیڈ کی گردان


ہم جب پرائمری میں پڑھتے تھے تو مختلف مضامین کے اساتذہ اپنے اپنے انداز میں کہانیاں، مضامیں ڈائیلاگ، خطوط اور درخواستیں لکھواتے تھے۔ اساتذہ اکثر درخواستوں میں تنبیہ کیا کرتے تھے کہ ہر درخواست کے تین حصے ہوتے ہیں اور تینوں حصوں کے اپنے اپنے نمبر ہوتے تھے۔ یعنی درخواست کا پہلا حصہ بخدمت جناب سے لے کر جناب عالی تک پھر درخواست کی باڈی یا درمیانی حصہ اور آخر میں آپ کا تابع و فرمان کے بعد ایکس وائی زیڈ یا الف ب ج لکھواتے تھے۔

اس وقت تو یہ ایکس وائی زیڈ کے الفاظ سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن یہ بتایا جاتا تھا کہ اپنا نام نہیں لکھنا چاہیے اور متعلقہ ادارے یا سکول کا نام بھی نہیں لکھنا چاہیے ورنہ نمبرز کٹ جائیں گے لہذا اس کے متبادل کے طور پر ایکس وائی زیڈ یا پھر اردو درخواستوں میں الف ب ج لکھوایا جاتا تھا۔

تحریر اور تقریر میں گو کہ بڑا فرق ہوتا ہے۔ کوئی لکھت پڑھت میں مہا کا کمال رکھتے ہیں اور الفاظ کے چناؤ، جملوں کی بناوٹ، درو بست، علامات تشبیہات، استعارات، اشارہ اور کنایہ کو بڑے سلیقے اور طریقے سے سپرد قلم کرتے ہیں۔ جبکہ کسی کو گفتار کا ملکہ حاصل ہوتا ہے اور بین السطور کے بجائے ”بین البیان“ یا ”بین التقریر“ وہ سب کچھ بول دیتا ہے جو ایک لکھاری لکھتے ہوئے ان الفاظ کے ضبط تحریر کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

آج کل جلسے جلوسوں کا بازار گرم ہے۔ علامتی زبان اور مخفف الفاظ کا ایک سلسلہ وار بیانیہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

میں دیگر الفاظ پر تو نہ کچھ کہہ سکتا ہوں اور نہ لکھنے کا روادار ہو سکتا ہوں البتہ ایکس وائی پر اس لئے کچھ لفاظی کرنے کی جسارت کی ہے کہ یہ نصابی طور پر علامتی زبان کا وہ بنیادی طریقہ کار اور تعلیمی شعار تھا جو آنے والے زندگی میں کام آنے کے ساتھ ساتھ سمجھ بوجھ اور فہم و فراست کا بھی بڑا وسیلہ تھا اور آج جب ہم سکول کے زمانے کو یاد کرتے ہیں تو ان اساتذہ پر رشک آتا ہے کہ درخواستوں کے لکھنے کے وقت علامتی اور متبادل کے طور پر استعمال کرنے والے ایکس اور وائی کے وہ الفاظ آج کتنے ریلیونٹ ہیں اور درخواست یا لکھائی کے بجائے تقریر میں بھی پورے مارکس کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔

اگر چہ درخواست کے تین حصے ہوتے ہیں سرنامہ اور اختتام کے اگر فل مارکس مل جائیں تو باقی باڈی کے اضافی مارکس سے کام چل جاتا ہے۔ کیونکہ آج کل تقریریں سر پاؤں اور ہاتھ ہلانے کے ساتھ ساتھ باڈی لینگویج پر انحصار کرتی ہیں ماوتھ لینگویج جیسی بھی ہو چل جاتی ہے بس بات ایکس وائی زیڈ یا اشاروں کنایوں میں ہو کسی پر براہ راست انگلی اٹھی ہوئی نہیں ہونا چاہیے۔

ویسے اگر دیکھا جائے تو بہت ساری باتیں ہمارے بچپن یا ہمارے ماضی کی آج کل اشاروں کنایوں میں مستعمل ہو رہی ہیں۔ جیسے فرشتے، خلائی مخلوق اور نیوٹرل وغیرہ۔

جب ہم چھوٹے ہوتے تھے بلکہ اب بڑے ہو کر بھی فرشتوں کے علم کے یا ان کے حساب کتاب لکھنے کے ہمارے دائیں بائیں کندھوں پر ان کی موجودگی کراماً کاتبین کی صورت میں مانتے ہیں۔ اور جب کسی کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا تو ہم کہتے ہیں کہ اس بات کی خبر ان کے فرشتوں کو بھی نہیں ہے یا نہیں تھی گو کہ یہ فرشتوں کی اصطلاح بھی لغوی معنوں کے بجائے علامات اور اشارات میں اب سیاسی ہو کر جلسوں جلسوں اور ٹاک شوز میں اکثر سننے کو ملتی ہے۔

اسی طرح بھوت پریت اور جنوں کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات کے تذکرے بھی ہم بچپن میں سنتے تھے جو نظر نہیں آتے تھے لیکن وجود رکھتے تھے۔ جو اب سائنس کی ترقی کے اس دور میں خلائی مخلوق کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں اور آج کل سیاسی مباحثوں میں اس کا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے۔ جو بظاہر غیر سیاسی ہے لیکن اندر سے جتنے وہ سیاسی ہیں اتنے ان کا نام لینے والے شاید نہ ہو۔

نیوٹرل کی اصطلاح بالکل تازہ تازہ ہے لیکن جتنی یہ تازہ ہے اتنی ہی یہ باسی بھی ہے لیکن جب ہم اس اصطلاح کو دیگر متذکرہ اصطلاحات کے ساتھ پرکھتے ہیں تو یہ زیادہ متعلقہ لگتی ہے اور زیادہ قریب تر محسوس ہوتی ہے۔ لیکن محسوسات بھی تو ہر کسی کے ایک جیسے نہیں ہوتے پتہ نہیں نیوٹرل اس اصطلاح کو کس طرح محسوس کرتے ہیں، للکارنے والے نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments