کیا تخت پنجاب پھر خطرے میں ہے؟


ایک طرف عمران خان کے مائنس کی باتیں چل رہی ہیں تو دوسری طرف پنجاب حکومت کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، عمران خان اپنے جلسوں میں یہ بار بار اظہار کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم پنجاب حکومت گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا پی ڈی ایم اور مسلم لیگ نون اتنی آسانی سے پنجاب حکومت کو گرا سکیں گی۔ اگر نمبر گیم کی طرف دیکھا جائے تو پنجاب اسمبلی میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی اکثریت ہے پی ٹی آئی کی کل 178 نشستیں ہیں اور ق لیگ کی 10 نشستیں ملا کر یہ تعداد 188 ہو جاتی ہے دوسری مسلم لیگ نون 168 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور پیپلز پارٹی اور 5 آزاد امیدواروں کا وزن ملا کر نون لیگ کے نمبر 178 بنتے ہیں۔

اب دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ق کی لیگ کی 10 سیٹوں پر ٹکی ہے جس پر اپوزیشن نے ٹکٹکی لگا رکھی ہے۔ تحریک انصاف کو کسی اور سے نہیں ق لیگ سے ہی خطرہ! تحریک انصاف کو پنجاب میں اپنا اقتدار بچانے کے لیے اتحادی ق لیگ کا سہارا ہے جب کہ اس وقت ق لیگ خود اندرونی اختلافات کا شکار ہے چودھری شجاعت پارٹی کے سربراہ ہیں اور پرویز الہیٰ پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ دونوں رہنماؤں میں اس وقت سرد جنگ جاری ہے کیونکہ چودھری شجاعت حسین کا جھکاؤ اس طرف پی ڈی ایم کی طرف ہے اور وہ پی ڈی ایم کے حامی ہیں جبکہ دوسری طرف پرویز الہیٰ نے عمران خان کے ساتھ چلنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

اب بات ٹکی ہے ق لیگ کے دس ممبران پر کہ وہ چودھری شجاعت کا ساتھ دیتے ہیں یا چودھری پرویز الہیٰ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ پی ٹی آئی کے 7 سے 10 ممبران صوبائی اسمبلی نے پرویز الہی کی حمایت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب قانونی نکتہ دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے بعد پنجاب حکومت کو گرانا کتنا مشکل ہوا؟ اگر سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو دیکھا جائے جس میں واضح کر دیا گیا کہ پارٹی سربراہ کی منشا کے خلاف ووٹ دینے والا نا اہل ہو گا۔

ایسے میں پنجاب حکومت کو گرانا تقریباً ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ کیا نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے پنجاب حکومت کو گرانے کی سازش کی جا رہی ہے؟ کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون اپنے قائد نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کرنے میں لگی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ ان کے ارکان کو پیسوں کی پیش کی جا رہی ہے اور دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ کیا 25 ارکان کی نا اہلی کے بعد کوئی رکن ہمت کرے گا پارٹی سے بغاوت کرنے کی۔

کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ گورنر کے ذریعے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تحریک انصاف بھی اعلان کر چکی ہے کہ ایسے کسی غیر آئینی اقدام کے لیے وہ بھر پور تیاری کیے بیٹھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اقتدار اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب وفاق میں بیٹھی جماعت کے پاس پنجاب نہ ہو۔ اب پنجاب کو حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن کیا داؤ پیچ کھیلتی ہے اور تحریک انصاف پنجاب کا اقتدار بچانے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے یہ تو وقت بتائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments