فوج کے لئے سیاست ممنوع تو عدلیہ کے لئے جائز کیوں ہے؟


اسلام آباد میں منعقد ہونے والی دو روزہ نویں انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے بعض ایسے تبصرے کیے ہیں جنہیں سن کر پوچھا جانا چاہیے کہ اگر فوج یا دیگر ریاستی اداروں کے لئے سیاسی معاملات میں مداخلت ممنوع ہے تو کیا ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی دخل اندازی کی کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے؟

جمعہ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی سیاسی قوتوں کو تمام قومی امور پر باہمی مشاورت سے معاملات طے کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب تمام سیاسی پارٹیاں مسلمہ جمہوری طریقہ کار کے مطابق آئینی طریقے سے پارلیمنٹ میں معاملات طے کریں۔ ملک کے سیاسی تعطل کا کوئی قانونی حل موجود نہیں ہے۔ اسے بہر صورت سیاسی مکالمہ کے ذریعے ہی طے کیا جاسکتا ہے‘ ۔ چیف جسٹس کے اس تبصرہ کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی تقریر میں بالواسطہ طور سے عسکری اداروں کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ’ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں نے سوات میں ایک ہزار بچیوں کے اسکول پر حملہ کیا، وہ اسکول 5 سال تک بند رہا۔ اب ہم انہی دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہم ان دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر اور کیا مذاکرات کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کی کس نے آفر دی‘ ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی اجازت کس نے دی؟

چیف جسٹس اور سال بھر بعد چیف جسٹس بننے والے فاضل جج کے یہ دونوں تبصرے تمام تر نیک نیتی اور خوش گمانی کے باوجود ملکی سیاسی فیصلوں اور معاملات میں مداخلت کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ اس بات کی حدود مقرر ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کسی سیمینار یا کانفرنس میں کیا گفتگو کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں پر ملک میں انصاف فراہم کرنے اور سب کو یہ یقین دلانے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عدالتیں کسی سیاسی وابستگی اور کسی ایک فریق کا ساتھ دیے بغیر قانون و آئین کے مطابق فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ اصول قانون کے تحت ملک میں اسی وقت قانون کی بالادستی کا اصول نافذ ہو سکتا ہے جب اعلیٰ عدلیہ کے جج اپنے آپ کو بھی ملکی قانون و آئین کا پابند سمجھیں۔

بدقسمتی سے ملک میں سپریم کورٹ نے ’آئین کی تشریح‘ کے نام پر مقننہ کے اختیار ات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ متعدد مواقع پر پارلیمنٹ کے فیصلوں کو مسترد کیا گیا یا اسے عدالتی فیصلے کے مطابق قانون سازی یا آئینی ترمیم پر مجبور کیا گیا۔ اس کی حالیہ مثال ارکان کی نا اہلی کے بارے میں آئینی شق 63 اے کی وضاحت کے لئے صدارتی ریفرنس میں دیا گیا فیصلہ ہے جس کی خود پانچ رکنی بنچ میں شامل دو فاضل ارکان نے مخالفت کی اور اسے آئین کو از سر نو تحریر کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اس تشریح کے بعد پنجاب میں حکومت سازی سے متعلق دو یکساں نوعیت کے معاملات میں دو علیحدہ علیحدہ موقف اختیار کر کے سپریم کورٹ کے ججوں نے آئینی تصرف کے علاوہ ہٹ دھرمی کی بھی ایک انوکھی مثال قائم کی تھی۔ وفاقی حکومت اور متعدد وکلا تنظیموں کی جانب سے اس اہم مقدمہ کی نزاکت و اہمیت کے پیش نظر سہ رکنی بنچ کی بجائے فل کورٹ یا لارجر بنچ بنانے کی درخواست کی تھی جسے ’غیر ضروری‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔ یوں موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال آئین کی وہی تفہیم مسلط کرنے پر مصر رہے جو سنگین سیاسی صورت حال میں ان کی صوابدید میں بہتر حل تھی۔ حالانکہ ایسی صورت میں انفرادی یا چند ہم خیال ججوں کی رائے کی بجائے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کی رائے شامل کرنے سے مشکل اور پیچیدہ سیاسی مسائل کو حقیقی قانونی طریقے سے حل کرنے کی روایت راسخ کی جا سکتی تھی۔

چیف جسٹس بندیال عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف سو موٹو اختیار کے تحت پارلیمانی اختیار میں براہ راست مداخلت بھی کر چکے ہیں۔ اسی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور نئی حکومت قائم کی گئی ہے۔ اب چیف جسٹس مقننہ اور انتظامیہ کو قانون کی حکمرانی میں کردار ادا کرنے اور سیاسی پارٹیوں کو مل جل کر آئین کے مطابق فیصلے کرنے کا ’مخلصانہ‘ مشورہ دے رہے ہیں۔ اس مشورہ اور رائے کے تمام تر احترام کے باوجود یہ سوال تو کیا جانا چاہیے کہ جب تک ملک میں قانون و آئین کے مطمح نظر کے بارے میں واضح حدود متعین نہیں ہوں گی بلکہ قانون ہو یا آئین، یہ کسی ایک موقع پر فیصلہ کرنے والے ججوں کی رائے اور صوابدید کا محتاج ہو گا تو ریاست کے اہم ترین ادارے کیوں کر اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کر سکتے ہیں؟

ان حدود کا تعین بلاشبہ سپریم کورٹ کا کام ہونا چاہیے لیکن یہ حدود حتمی اور یونیورسل ہوں تاکہ اعلیٰ عدالتوں کے جج خود بھی ان کے پابند رہیں اور کسی نئے موقع پر نئی ضرورت کے تحت کسی قانونی نکتہ کی نئی تشریح کرتے ہوئے کام چلانے کی کوشش نہ کی جائے۔ پاکستان کا آئین تحریری ہے جس کے بارے شبہات پیدا ہونے کا بہت کم امکان ہونا چاہیے لیکن اس کے باوجود سپریم کورٹ خود کو آئین کی تشریح کا ’حقدار‘ سمجھتی ہے۔ اس رویہ سے تو یہ تاثر قوی ہو گا کہ سپریم کورٹ کے جج خود کو ملکی آئین کی متعین حدود کا پابند نہیں سمجھتے اور آئینی تشریح کے استحقاق کے نام پر خود کو آئین سے بالا سمجھنے لگتے ہیں۔ اس مسئلہ کا واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ پارلیمنٹ ملک میں ایک دستوری عدالت قائم کرے تاکہ آئینی تفہیم کے سلسلہ میں پیدا ہونے والا ابہام اس عدالت کے ذریعے دور کیا جا سکے۔ اس طرح موجودہ سپریم کورٹ کے ججوں کے دوہرے رول کو ختم کیا جا سکے گا۔ اس وقت سپریم کورٹ ہی آئین کی تشریح کرتی ہے اور پھر وہی عدالت اس تشریح کے مطابق فیصلے صادر کرنے کی بھی مجاز ہوتی ہے۔ آئینی عدالت کے قیام سے ان دو مختلف نوعیت کے فرائض کی ادائیگی میں ایک حد فاصل قائم ہو سکے گی جس سے قانون کی حکمرانی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ تاہم ایسی کسی آئینی ترمیم میں سیاسی کشمکش سے قطع نظر سپریم کورٹ کی طرف سے مزاحمت کا سب سے زیادہ امکان ہے۔

چیف جسٹس نے بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس میں آئینی احترام اور قانون کی بالادستی کے جس اصول کا ذکر کیا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری کے معاملہ کو زیادہ شفاف بنایا جائے اور چیف جسٹس اس سلسلہ میں اپنے کہے کو ’حرف آخر‘ سمجھنے پر اصرار بند کریں۔ اس وقت یہ اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آیا ہے کہ چیف جسٹس اس ادارے کو اپنی مرضی کے تابع رکھنا چاہتے ہیں۔ پہلے جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کے موقع پر سابق چیف جسٹس کا طرز عمل افسوسناک اور غیر جمہوری رہا اور حال ہی میں موجودہ چیف جسٹس کے تجویز کردہ پانچ نام جوڈیشل کمیشن کی اکثریت نے منظور نہیں کیے۔ اس اجلاس میں چیف جسٹس کا طرز عمل قابل تحسین نہیں تھا۔ اپنے خلاف رائے دیکھ کر انہوں نے کمیشن کی کارروائی کو ادھورا چھوڑ کر اجلاس ملتوی کر دیا۔ بعد میں اس معاملہ پر ایک اجلاس میں تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے حکومت اور وکلا تنظیموں پر سیاست کرنے کا الزام لگایا۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار مناسب نہیں ہے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ججوں کو مکمل اختیار دینے کی بجائے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹی کو اس کارروائی میں حصہ دار بنایا جائے۔

حالیہ برسوں میں نوٹ کیا گیا ہے کہ سو موٹو نوٹس کے آئینی اختیار کو غیر ضروری طور سے اور بعض صورتوں میں ناجائز طور سے استعمال کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کو یہ اختیار انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کسی انتہائی وقوعہ کا نوٹس لینے کے لئے دیا گیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ چونکہ خود ہی آئین کی تشریح کا اختیار رکھتی ہے لہذا وہ کسی بھی معاملہ کو بنیادی حقوق کا مسئلہ قرار دے کر مداخلت کرتی رہی ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سو موٹو کارروائی اس کی روشن مثال ہے۔ یا تو اس اختیار کو ختم ہونا چاہیے یا اسے استعمال کرنے کی واضح حدود متعین ہونی چاہئیں۔ ملک کے ممتاز قانون دان اور وکلا تنظیمیں اس حوالے سے فل کورٹ کی رائے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں لیکن اس رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔

سپریم کورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے معاملہ میں موجودہ چیف جسٹس کے طریقہ کار پر بھی رائے سامنے آتی رہی ہے کہ کس طرح اہم ترین آئینی و سیاسی معاملات میں بھی سپریم کورٹ کے سینئیر ترین ججوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال مصر رہے ہیں کہ بنچ مقرر کرنا ان کا صوابدیدی اختیار ہے جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب وہی چیف جسٹس ملک کے سیاسی مسائل کو ’افہام و تفہیم سے حل‘ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب جو ہم آہنگی اور خیر سگالی سپریم کورٹ میں پیدا کرنے میں ناکام ہیں، اسے سیاسی پارٹیوں تک وسیع کرنے خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس جوڈیشل کانفرنس میں خطاب سے پہلے تحریک انصاف کی ایک پٹیشن پر غور کرتے ہوئے مشورہ دے چکے ہیں کہ عوام پانچ سال کے لئے ارکان منتخب کرتے ہیں، اس لئے پی ٹی آئی کو مقدمے دائر کرنے کی بجائے قومی اسمبلی میں واپس جاکر اپنا سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس مشورے کی اصابت سے قطع نظر، ایک قانونی درخواست پر غور کے دوران چیف جسٹس کسی قانونی یا آئینی بنیاد پر ایسے مشورے کس اختیار کی بنیاد پر ارزاں کرتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کے دوران فاضل ججوں کے ’ریمارکس‘ اپنی جگہ پر انصاف کی فراہمی میں بڑا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ عام طور سے جج حضرات کسی قانون کی بہتر تفہیم کے لئے وکلا سے سوال کرتے ہیں لیکن اہل پاکستان دیکھتے رہے ہیں کہ یہ تبصرے شہ سرخیوں میں جگہ بنانے اور سوشل میڈیا پر مباحث کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس کی بنیاد پر خبریں بنانے پر ابھی تک کسی برہمی کا اظہار بھی نہیں کیا جس سے ریمارکس کی نئی حکمت کو جاننا مشکل نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی یہ خواہش درست اور جائز ہے کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے تاہم اس مقصد کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کو خود رول ماڈل بننا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments