اقوام متحدہ کی نظر میں ہمارا نظام تعلیم


پاکستان کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے ساٹھ سال پیچھے ہے، 56 لاکھ بچے سرے سے سکول جاتے ہی نہیں، ایک کروڑ چار لاکھ طلبہ سیکنڈری سے آگے نہیں جاتے، شہری اور دیہی بچوں کی تعلیم میں بہت فرق ہے، وجہ تعلیم پر کم خرچ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ

پاکستان کے مالکوں نے جب یہ رپورٹ پڑھی تو انہوں نے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ بات پاکستان کے سکول اور نصاب کی تھی اس لیے سرکاری منشی نے کوشش کی کہ اسی زبان میں بات کی جائے جیسے سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ پڑھایا کی جگہ سکھایا نہیں لکھا کیوں کہ دنیا سکھاتی ہو گی، ہمیں تو بحیثیت قوم پڑھانے کا شوق ہے اور الحمدللہ پڑھاتے ہیں۔

بخدمت جنابہ اقوام متحدہ صاحبہ

گزارش ہے، آپ نے خواہ مخواہ ہمارے نظام تعلیم کو ساٹھ سال پیچھے کہہ دیا ہے۔ آپ سے امید نہیں تھی پر آپ نے بھی ساری دنیا کی دیکھا دیکھی ہمارے خلاف سازش کر دی۔ چلو کوئی بات نہیں، ویسے بھی امیر ممالک یا ان کے لونڈوں کی باتوں کو ہم خوشی سے پی جاتے ہیں اور ملک کے اندر باتیں کرنے والوں کو پی جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہم آپ والی دنیا سے سو دو سو سال پیچھے ہیں۔ ایسے میں ہمارا نظام تعلیم آپ کے بقول اگر آپ سے ساٹھ سال پیچھے ہے تو پھر ہم سے تو بہت ہی ایڈوانس ہوا۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس پر ہمیں مبارک دیتے۔ آپ نے مبارک نہیں دی، چلو کوئی بات نہیں، یہ ستم بھی ہم پی جاتے ہیں۔

جناب اعلی، ہم نے اپنی ضروریات کے مطابق اپنے نظام تعلیم کو بڑا جدید رکھا ہوا ہے۔ ہماری ضروریات باقی دنیا سے الگ تھلگ ہیں ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہم نصاب تعلیم میں وقتاً فوقتا پیوند کاری کرتے رہتے ہیں۔

چار پانچ سال ہوئے ہمیں ریاست مدینہ بنانے کی سوجھی۔ ہم نے سن اکیس اور بائیس میں نرسری سے لے کر دسویں تک نہ صرف اسلامیات کی ایک اضافی کتاب متعارف کروائی بلکہ انہی کلاسوں کی اردو اور سائنس میں بھی جہاں جہاں ممکن نہیں تھا وہاں ریاست مدینہ کے لیے ضروری سامان ڈال دیا ہیں۔

گزارش ہے کہ ہم بحیثیت قوم بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ ہمارا مطلب اپنی قوم کو ان دو محاذوں کی تیاری کروانا ہے۔ ایک تو جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں، ہمارا خطرناک مشرقی ہمسایہ ہے۔ ہمارے مشرقی ہمسائے بارے اگر آپ مز ید جاننا چاہتے ہیں تو اپنے دفتر کے کباڑ خانے میں پڑی ہماری فائلوں کو دیکھ لیں۔

دوسرے نمبر پر ہمارا واسطہ قبر کی خطرناک راتوں سے ہے۔

مشرقی ہمسائے کے لیے ہمارے پاس پہلے ہی بہت ساز و سامان ہے اب سال اکیس اور بائیس کی تبدیلی نصاب میں ہم نے دوسرے محاذ (قبر) میں کامیابی کے لیے بہت اچھا کر لیا ہے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ نیا سلیبس پڑھ کے مرنے والوں میں سے ایک بھی پاکستانی کو قبر میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔

یہاں میں حکومت پاکستان کی طرف سے آپ سے ایک ریکویسٹ کرتا ہوں کہ آپ یورپین ممالک کو پابند کریں کہ وہ ہمارے طالب علموں کو تعلیمی ویزا جاری کرنے کے لیے فزکس کے سوالوں کے بجائے قبر میں کیے جانے والے سوالوں میں سے سوال کیا کریں۔ یقین مانیے ہمارا ہر طالب علم کوالیفائی کر لے گا۔

جناب اعلی

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ملکی سسٹم آپ کی طرح سیدھے سادے طریقے سے نہیں چلتا۔ اس کو چلانے کے لیے ہم نے کبھی کبھار فیض آباد پل یا ڈی چوک پر میلہ لگانا ہوتا ہے۔ ایسا شاندار میلہ آپ والے نصاب سے ممکن نہیں۔

دوسری بات یہ آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ساٹھ سال پرانا ہے یہ بات اتنی درست نہیں ہمارے نصاب میں کافی چیزیں یہاں تک کہ سائنس میں بھی کوئی چیزیں چودہ سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم ہسٹری کو بطور الگ سبجیکٹ نہیں پڑھاتے ایسا کرنے سے ہم اردو اور سائنس میں ہی ہسٹری پڑھا لیتے ہیں۔

ہسٹری جغرافیے کی کتب نہ ہونے سے بچوں کے سکول بیگ کا وزن بھی کم رہتا ہے۔

جناب عالی۔ ہمیں ایسا نصاب اس لیے بھی سوٹ کرتا ہے کہ ہمیں خدمات لینے کے لیے اتنے پڑھے لکھے ہی چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ والے سلیبس سے لوگ تنقید، بحثیں اور دلیلیں دینا سیکھ جاتے ہیں، پھر وہ ووٹ مانگنے پر ہم سے الجھیں گے اور ہماری فیکٹریوں میں کوئلہ ڈالنے والے اپنی سکیورٹی مانگیں گے، اجرت کی بڑھو تری کے لیے جراح کریں گے۔

جناب عالی۔ اگر آپ بھی باریک بینی سے چیک کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارا تعلیمی نظام جس کو آپ پرانا کہتے ہیں، صرف آپ ہی کے لیے نہیں، ساری دنیا کے لیے مفید ہے۔

آپ خود سوچیں اگر ہم نے تعلیم کو جدید بنا لیا تو عوام میں تنقیدی شعور آ جائے گا۔ عوام اپنے حاکموں سے جنگ و جدل بند کرنے کا مطالبہ کریں گے، اگر عوام ایسا کروانے میں کامیاب ہو گے تو اسلحہ فروخت کنندگان اسلحہ کے ایک بڑے خرید دار سے محروم ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ان کی دال روٹی کے لیے بھی ہمارا نصاب تعلیم مفید ہے۔ ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“

آپ سے التماس ہے چونکہ ہم نے ساری دنیا کی بھلائی کا درس یاد کیا ہوا ہے، اس لیے بہتر ہوتا کہ ہمارے نصاب کے خلاف بولنے سے پہلے آپ اس کو ہم سے سمجھ لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments