توہین عدالت کیس! معافی نہیں مانگی معذرت کی


22 ستمبر بروز جمعرات پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس میں پیش ہوئے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے پچھلے مہینے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک عوامی جلسے میں شہباز گل پر ہونے والے مظالم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ جب شہباز گل کو پولیس نے جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا تو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیشی کے بعد ان کو دوبارہ پولیس کے حوالے کرنے پر کافی سوالات اٹھے۔ خصوصاً

مجسٹریٹ کی دوبارہ حوالگی پر کیوں کہ مجسٹریٹ عام طور پر اس ریمانڈ کے دوران ہونے والے کارروائی کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کا ہر شہری برابر حقوق رکھتا ہے۔ لیکن شہباز گل کو دوبارہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ جس پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ عمران خان نے بھی جلسے میں اس تشویش کا اظہار کیا اور مجسٹریٹ کے خلاف قانونی کارروائی کا ذکر کیا۔ قانون پاکستان کے تحت کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں۔

اور ہر شہری اپنا قانونی حق محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن تخت اسلام آباد نے اس بیان پر عمران خان پر توہین عدالت کا کیس تیار کیا۔ عمران خان نے ابتدائی طور پر اپنا بیان داخل کر دیا۔ لیکن عدالت اس بیان سے مطمئن نہیں ہوئی۔ اور 22 ستمبر کو عمران خان پر توہین عدالت کا فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے سے ملکی عدالتی نظام زیر بحث آیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں سخت عوامی ردعمل کا اظہار سامنے آیا۔ پاکستان میں توہین عدالت کو عام طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا تاریخی فیصلہ موجود ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے مقدمات کے لیے رہنما اصول متعین کیے گئے ہیں۔ جس کے تحت مقدمہ کا اندراج ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان کے کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعین کردہ اصولوں کی پرواہ نہیں کی گئی۔ بلکہ سیاسی بنیادوں پر عمران خان پر توہین عدالت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جو کہ توہین عدالت ہی نہیں تھی۔ 22 ستمبر کو عمران خان جب عدالت میں پیش ہوئے تو اس موقع پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے جج صاحبان سے عمران خان کا موقف سننے کی درخواست کی۔

کیوں کہ پچھلے سماعتوں پر بھی عمران خان کو بولنے نہیں دیا گیا۔ حالانکہ یہ عمران خان کا بنیادی حق تھا کہ ان کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں۔ لیکن پچھلی سماعتوں میں ان کو موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ لیکن 22 ستمبر کو ان کے وکیل حامد خان کے کہنے پر ججوں نے خان صاحب کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ خان صاحب نے مذکورہ واقع پر معذرت کا اظہار کیا۔ عدالت نے خان صاحب کی معذرت کو قبول کر کے توہین عدالت کا فرد جرم عائد نہیں کیا بلکہ سماعت ملتوی کردی گئی۔

پاکستان میں توہین عدالت کا سیاسی بنیادوں پر استعمال ایک اہم مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بار بار کہا ہے کہ وہ توہین عدالت کے قانون کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جب تک پاکستان میں توہین عدالت کا قانون موجود ہے وہ اس قانون کے پابند ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل کر اس کالے قانون کا سدباب کریں۔ کیوں کہ جمہوریت میں اس طرح قوانین کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بہت کمزور ہے۔ اس لیے اس طرح جمہوریت دشمن قوانین کا فائدہ غیر جمہوری طاقتوں کو ملتا ہے۔

اچھا خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے۔ انشااللہ آئندہ اس پر طویل بحث کریں گے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد عمران خان کے معافی یا معذرت پر بحث ہو رہی ہے۔ بطور لسانیات کے طالب علم میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے معذرت کی۔ کیونکہ جب توہین عدالت کا کیس نہیں بن سکتا تو معافی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بندہ کسی کو موت کی دھمکی دی تو اس پر پاکستان پینل کوڈ کے 506 کے مطابق مقدمہ درج ہو گا۔ اور سزا اس کوڈ کے مطابق ملے گی اگر قتل کریں تو 302 کا کیس بنتا ہے۔

اس کی سزا الگ ہیں۔ لہذا اس پر توہین عدالت کا کیس نہیں بنتا ہے۔ اردو زبان میں معافی کے لیے رہائی، خلاصی، نجات ؛ عفو، مغفرت، بخشش کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جب انسان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ تو غلطی کرنے والا ہاتھ جوڑ کر معافی و درگزر مانگتا ہے۔ مجھے معاف کردو۔ کیوں کہ میں نے غلطی کی۔ اب جس کے ساتھ غلطی کی وہ بھی معاف کرے گا تب معافی ہوتی ہے۔ یہ یک طرفہ عمل نہیں ہے۔ معافی مانگی جاتی ہے اور مصالحت ضروری ہے۔

کسی زبان میں الفاظ کا عمل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ معذرت کا لفظی مطلب کسی حرکت، بات یا صورتحال پر افسوس کا اظہار کرنا۔ یہ دونوں الفاظ متبادل نہیں ہے۔ بلکہ یہ دونوں مختلف ہے۔ معافی ایک عمل کا نام ہے۔ جبکہ معذرت عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ یہ اردو میں بطور اسم مؤنث مستعمل ہے۔ معافی کے لیے انگریزی زبان میں Forgiveness کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ معذرت کے لیے sorry کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ معذرت مثلاً ایک شخص اپنی کسی پیشہ ورانہ غفلت یا پھر کسی نازیبا کلام گوئی پر معذرت چاہ سکتا ہے، جس کے لیے وہ خود راست طور پر ذمہ دار ہے۔

اب یہ کاروباری ادارے کا اختیار ہے کہ معاملے کو در گزر کرے، ملازم کو تنبیہ کرے کہ اس طرح کا کوئی معاملہ آئندہ بہت سنگین عواقب کو دعوت دے گا، جس میں اس کی خود کی ممکنہ معطلی، نقصانات کی پابجائی یا پھر برخاستگی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ یہ معذرت ہے۔ عمران خان نے معذرت مانگی۔ کہ اگر عدالت چاہے تو میں مجسٹریٹ کے گھر جاکر بھی ان سے معذرت کروں گا۔ کیوں کہ پاکستان تحریک انصاف ایک جمہوری جماعت ہے۔ اس جماعت کی 26 سالہ جمہوری تاریخ ہے۔

یہ پارٹی قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ عمران خان نے مجسٹریٹ سے معذرت ( سوری) کی۔ تو کیا سوری کا مطلب معافی مانگنا ہے۔ ہر گز نہیں۔ اس سیاسی اور من گھڑت کیس میں عمران خان کو کامیابی ملی۔ اس کا سہرا عمران خان کے لیگل ٹیم خصوصاً حامد خان کے سر جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی لیگل ٹیم پر نظر ثانی کریں۔ حامد خان جیسے نظریاتی وکیلوں کو ٹیم میں شامل کریں۔ تاکہ پاکستان تحریک انصاف کی قانون کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا ریکارڈ قائم رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments