کیا اسحاق ڈار ملک کو معاشی مشکلات سے نکال کر عوام کو ریلیف دے پائیں گے؟


مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے اسحاق ڈار کو میدان میں لائے ہیں۔ اسحاق ڈار جو وزیراعظم کے جہاز پر 2017 کو علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور وزیراعظم کے جہاز پر ہی گزشتہ ہفتے وطن واپس آئے۔ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے ساتھ ہی ڈالر کو بیگ گیئر لگ گیا۔ اب یہ اسحاق ڈار کی واپسی کا کرشمہ ہے یا کچھ اور یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔ 23 ستمبر 2022 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کی گرفتاری روکتے ہوئے 7 اکتوبر تک رضا کارانہ پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا مقصد ملزم کی عدالت حاضری یقینی بنانا تھا، اگر ملزم خود عدالت میں پیش ہونا چاہتا ہے تو ایک موقع دیا جانا ضروری ہے۔

کیا اسحاق ڈار ڈالر کو کنٹرول کر کے روپے کی قدر کو مستحکم کر پائیں گے؟ کیا اسحاق ڈار ملک کو معاشی مشکلات سے نکال کر عوام کو ریلیف دے پائیں گے؟ اسحاق ڈار کے اچانک وزیرخزانہ بنانے کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟ کیا اسحاق ڈار کی واپسی سے نون لیگ کی ساکھ بھی بحال ہوگی؟

کیا اسحاق ڈار پرانے معاشی ماڈل کے ذریعے ہی معیشت چلائیں گے؟ یہ وہ چیلنجز ہیں جس کا اسحاق ڈار کو سامنا کرنا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب اقتدار عمران خان سے شہباز شریف کو منتقل ہوا تھا تو اس وقت نون لیگ نے ملک کو معاشی مشکلات نکالنے کے لیے بڑے بڑے دعوے کیے اور کہا گیا کہ معیشت کی گاڑی کو ٹریک پر لانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ مفتاح اسماعیل کی قیادت میں معاشی ٹیم نے ایک کے بعد ایک مشکل فیصلے کیے لیکن نہ تو ملک کی معاشی مشکلات کم ہوئیں اور نہ لوگوں کی حالت بدلی۔

ڈالر کی اڑان اونچی ہوتی گئی۔ روپیہ کی قدر گرتی گئی۔ شہباز حکومت کے پہلے 6 ماہ میں ہی ڈالر 57 روپے 7 پیسوں تک مہنگا ہوا۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ مفتاح اسماعیل کے مشکل فیصلوں کے باوجود بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ نہیں تھما۔ کبھی آٹا غائب تو کبھی پیاز اور ٹماٹر۔ یہ وہ ناکامیاں ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب معیشت کا میدان اسحاق ڈار کے سامنے کھلا ہے۔

آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد اسٹیٹ بینک زیادہ خود مختار ہو گیا ہے جبکہ ملک میں ڈالر کی بھی شدید کمی ہے ایسے میں ان کے پاس کون سی ”جادو کی چھڑی“ ہے جسے وہ گھمائیں گے اور ملک معاشی مشکلات سے نکل آئے گا؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ عمران خان کو 08 مارچ 2022 کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا تو اس وقت ڈالر 178.6 روپے کا تھا آج انٹر بینک میں ڈالر 2 روپے 65 پیسے سستا ہو کر 237 روپے کا ہو گیا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 6 روپے 40 پیسے سستا ہو کر 238 پر فروخت ہو رہا ہے۔

رواں مالی سال کے دوران روپے کی قدر میں تقریباً 26 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ شہباز حکومت کے پہلے 6 ماہ میں ہی ڈالر 57 روپے 7 پیسوں تک مہنگا ہو چکا ہے۔ جبکہ عمران حکومت کے ساڑھے 3 سالہ دور میں ڈالر 58 روپے 8 پیسوں تک مہنگا ہوا تھا۔ 29 اگست 2022 کو یعنی آئی ایم ایف کی قسط کی منظوری کے روز ڈالر کی قیمت 221.92 روپے پر بند ہوئی۔ لیکن قرض کی منظوری سے اب تک انٹربینک میں ڈالر 18 روپے سے بھی زائد مہنگا ہو چکا ہے۔

ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 24 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کم ہوئے ہیں، جو 16 ستمبر تک زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب 6 کروڑ ڈالر رہے۔ اگر ملکی قرضوں کی بات کریں تو اس وقت پاکستان کے مجموعی قرضے 50 ہزار روپے سے اوپر کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ جولائی 2021 تا مارچ 2022 کے دوران مرکزی حکومت کے قرضے 4 ہزار 307 ارب روپے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 9 مہینوں میں ماہانہ اوسط 500 ارب روپے سے کم قرضہ لیا۔

جولائی 2022 تک وفاقی حکومت کا مقامی قرض 31 ہزار 12 ارب اور غیر ملکی قرض 19 ہزار 375 ارب روپے تھا۔ شہباز شریف حکومت کے ابتدائی 4 ماہ میں قرضوں میں ماہانہ اوسط تقریباً 1871 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کے وقت ملکی میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جس پر مسلم لیگ نون تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی تھی۔ نون لیگ کے دور میں مہنگائی کی شرح 45 فیصد کو چھونے کے بعد اس وقت 27 فیصد پر ہے۔

دن بدن خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے مسلم لیگ نون ساکھ عوام میں گرتی جا رہی ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں شکست کی وجہ ملکی معاشی حالات کو قرار دیا جاتا ہے۔ معاشی مشکلات میں پھنسے پاکستان کو سیلاب نے مزید تباہ کیا اور اب تک 30 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ مشکل معاشی فیصلوں کے بعد اب اسحاق ڈار ملک کو معاشی صورتحال سے نکالنے کے لیے وطن واپس آچکے ہیں۔ اسحاق ڈار کے پاس ایسی کون سی ”جادو کی چھڑی“ ہے جسے وہ گھمائیں گے اور ملک معاشی مشکلات سے نکل جائے گا؟

اسحاق ڈار کے اگر ٹریک ریکارڈ کو دیکھا جائے تو 1998 میں جب نون لیگ نے ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان پر کئی معاشی پابندیاں لگا دی گئیں تو یہ اسحاق ڈار ہی تھے جنہوں نے اس وقت بھی ملک کو معاشی مشکلات سے نکالا۔ پھر 2013 میں بھی مسلم لیگ نون کو خراب معاشی صورتحال ملی اس وقت بھی اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں ہی کی بدولت ملک معاشی استحکام کی طرف لوٹا۔ کیا اب پھر ملک کو اسحاق ڈار کی ضرورت ہے؟ کیا اسحاق ڈار ملک کو معاشی گرداب سے نکال پائیں گے اور کیا اسحاق ڈار معیشت پر لیے گئے مشکل فیصلوں سے نون لیگ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کر پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments