آخری سفر


شاید غم اس کے سینے سے امڈ کر باہر آ رہا تھا۔ سنبھلا سنبھالے نہیں تھا۔ آج پہلی بار چلتی سڑک پر بے پروائی سے چل رہی تھی۔ جیسے اس کو دنیا کی کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔ کوئی تیز رفتار اشارہ توڑتی گاڑی اس کو ٹکر مار بھی دیتی تو وہ خوشی خوشی اس کے نیچے کچلے جانے کی روادار تھی۔ تیز دھوپ کی شعائیں اس کے سر سے پار ہو کر اس کے سینے میں اترتی، جہاں موجود غم شعاؤں سے تڑپ اٹھتا۔ اس کے چہرے پر موجود حفاظتی ماسک اس کے آنسوؤں کا حجاب رکھتا رہا اور آنکھوں پر ٹکا نظر کا چشمہ اس کی سرخ ڈوریوں کو قدرے چھپاتا رہا۔ بس جیسے غم اس کے سینے سے امڈ کر باہر آ رہا تھا۔

دور درختوں کے کچھ پتے اس شام کی ظلمت میں کچھ چہرے بناتے دکھ رہے تھے۔ ہوا اسیر یاس تھی بالکل اس کی تمکنت بے جاں کی سی۔ اندھیروں کی مصوری جان لیوا تھی، مگر جان جاتی نہیں تھی۔ کہیں اٹک سی گئی تھی بالکل اس کی طرح۔ زندگی تھمی ہوئی تھی، غموں کی پرچھائیاں آڑے آتی اور یاس کی بساط بچھائے ہچکچاتی نہ تھیں۔ فسوں کے شرارے شعلوں کی صورت گھائل دل سے پھوٹتے تو سارے وجود کو اپنی بے رحم پناہ میں لیتے۔ ملال، رنج، مصائب پنکھڑیاں کھلائے ایسے بارعب معلوم ہوتے تھے جیسے یہ جیون ان کا مقروض ہو، آہ کی ردائیں باد ملائن میں جھومتی سرسراتی اس کو منہ چڑھا رہی تھیں۔

یہ غضب کا چرخ تھا اور بے بسی کے ابر جھول رہے تھے۔ اندھیرا اب بھی تھا، روشنی میں بھی خار تھی۔ بینائی پر چبھن کی وبا سی پھوٹی تھی، وہ سانس لے رہی تھی، زندہ نہیں تھی۔ زندگی موجود تھی، ساکت تھی، رواں نہیں تھی، پنپ نہیں رہی تھی۔ بس غم تھا کہ الم کے جھرمٹوں میں سے نکل نکل کر محرومیوں کے ساحل پر شرارے مارتا تھا اور اس کا ہونا ہونے کے ہاتھوں پٹتا تھا۔ درد تھا کہ سینے سے امڈ کر باہر آ رہا تھا۔

تن پر پڑے تکالیف کے دھبے جیسے دوبارہ سے جی اٹھنے کو بیتاب تھے۔ زخموں سے جو مشروب قضا رستا تھا اور وہ اپنے کل معنی کھو چکی تھی۔ غم کا بوجھ بڑھتا تھا مگر ابھرے زخم رنج نہیں دیتے تھے، قہر کی رو پھونکتے تھے۔ وہ ادھوری تھی، اس کی تکمیل میں کچھ بھی تو مکمل نہ تھا۔ کبھی انداز جاوداں میں جینا نصیب بھی نہ ہوا، لطیف لہجے، لحیم لمحے نایاب تھے، چہرے دکھا نہیں پاتے تھے، عکس روشنیاں نہیں اچھالتا تھا۔ اس کے ہاتھ خالی تھے، مگر وجود بوجھ سے لدا تھا۔ کچھ نہ ہونے کی ٹھوکریں راستے اوجھل کر رہی تھیں۔ قسمت کے پیروں میں بھی اب موچ آ چکی تھی، وہ تو کبھی ٹھیک سے چل بھی نہیں پائے تھے، بس حوصلہ تھا جو ٹوٹ رہا تھا۔ غم کی لہریں سر دھن رہی تھیں، جبین و رخسار چوٹ کھائے ہوئے تھے، بے یار بھی اور منتظر مددگار بھی۔

دل کے پاتال میں ہر لمحہ سر اٹھاتے خاموشیوں کے وسط، چیختے غم کے موتی، چٹخ چٹخ کر محرومیوں کی بے نشاں ہوئی قبور کو کھود کر شور کو زندہ کرتے، ایسا ظلمت کا میدان سجتا کہ خیالوں کی سنوری پریاں دعاؤں کو ہمراہ لئے کوچ کرتی گئیں۔ جو رہ گیا وہ ایک گھاؤ کی آماجگاہ سینہ تھا، جس کے پختہ، معصوم اور مظلوم کیواڑوں سے غم امڈ کر باہر آنے کو تھا۔

خوف اندھیروں کا نہیں، گرائی ہوئی زندگی کے اندھیرے وجود کا تھا۔ سفید آسمان تلے سیاہ اشجار کے جبیں نت نئے چہرے بنتے رہے، زندگی کی تصویر جو بہت غمناک تھی اپنے آلہ تکلیف بدل کر وار ایسے کرتی کہ اشجار کی چپ میں زور دار دھماکہ اس کی بھٹکی سماعتوں سے ٹکراتا۔ زخموں سے لیس، یاس سے سرشار تخلیات میں اوندھی اشکال غم کے آنچلوں میں زندگی چھپائے اس کے بہتے رخساروں کو نوچتے رہے۔ سفید آسماں پر کہیں کہیں بجلیوں کی سازشیوں نے شور مچا رکھا تھا۔ اندوہناک لرزہ خیز شور۔ وہ وحشت کا ناٹک امید تھا کہ کوئی چمکتا بجلیوں کا تموج کہ اس کو بھی اپنے ہمراہ لے جائے گا، غم کے بہتے الاپ چپ سادھ کر مرہم رکھیں گے۔ یہ گمان دروغ تھا اور وساوس کا کھیل تھا۔

کہکشاؤں میں کوئی رمق نہیں تھی کہ اس کو دعا دیتی۔ وہ بھی ہر عقیدہ اور یقین ہار چکی تھیں۔ دنیا کی کسی بھی طاقت کے ہونے کا گمان بھی اب گمان نہ تھا۔ ستارے جو اس کے ہمسفر تھے چل بسے تھے۔ اس کا راہی آسماں تھا مگر گمنام راہوں میں فدا ہو چکا۔ ساخت بدلتے دور ساکت کھڑے اشجار اس کی ماند پڑتی روشنائی سے کھیل بند کرتے تو ہوش کی کوئی آندھی چلتی۔

بارشوں کے برستے بے شمار قطرے ان دہکتے غم کے شعلوں کو بجھا دیں گے؟ یہ سوال امید تھا مگر امید کی کوئی رمز دکھائی دیتی نہ سکھائی دیتی۔ جوں جوں بادلوں سے آزاد ہوتے موتی اس کی بھیگی آنسوؤں سے مزین آنکھوں کو چھوتے، ویسے یاس کے اندھیرے اس کو سلب کرتے، ہر خواب کو، آرزو کو، محنت کو۔ جا بجا اس کا وجود ظلمت شب کی لہکتی بجلیوں کی رعنائیاں سمیٹتا رہا، تار تار ہوتا رہا۔ ایک ایک کر کے سارے غم بیدار ہو گئے اور سوچوں کا گرداب مچلنے لگا۔ افسوس کے وہ سارے جالے جو چاٹ رہے تھے نئے رخ اپناتے گئے، ہر غم نے اپنا راستہ چن سا لیا تھا، اس کو چن لیا تھا۔ ڈھارسوں کے سارے دھاگے اپنے کمزور بخیوں سے مرہموں کو خیر آباد کہتے باہر کود چکے تھے۔ وہ زنداں تھا جس کے قفل بھی آزاد تھے اس کے نحیف و معتبر تخیل کے۔ آج پھر دہشت کا راج تھا، سزا کا کھماج تھا۔

چار سو دکھ کے مچان سجے بے بسی کے اشعار اس کے زخمی الفاظ کو چاٹ رہے تھے۔ وہ الفاظ کھو گئے یا اس کو پکار رہے تھے۔ طوفان کا غل مچا تھا، یا حشر برپا کیا گیا یا وہ خواب وحشت کو جھیل رہی تھی؟ لیکن سب اس کے حضور اس کی مدھم ڈگمگاتی بینائی میں ہوتا رہا، وہ حقیقت کا غسل تھا اور اس کے بے جان وجود تنہا کسی ویران پہاڑ کی چوٹی پر خود کو خود میں سموئے ڈھارس بندھا رہا تھا؟ یہ ضبط کی معراج تھی، حوصلوں کے دروغ میں وحشت کی چٹختی چوٹیوں کی پھسلتی ریت کے ٹیلوں پر قائم اس کی بے رونق حیات یاس غم اٹھائے، مشعل رنگ کے درپے تھی۔

اس قدر بھی تو بے جان نہیں تھی، دستک تو سن رہی تھی مگر صوت بے سود تھی، وہ در بے نور تھا اور غم ان ساخت بدلتے اشجار کے سائے میں اس کے سینے سے امڈ کر باہر آ رہا تھا، اس کا سینہ پھر بھی ڈٹا تھا، ہمت تھی کہ بندھی تھی، وہ دہک رہی تھی مگر بھٹک نہیں سکتی تھی، اس گنجان چوٹی کی وحشتوں میں ظلمتوں کے سامنے مشعل ہنر اب بھی باقی تھی، اس کے ہاتھوں میں تھی، سینہ غم کے روبرو دل میں ثبت تھا۔

یہ اس کا آخری سفر تھا۔ خوشی کے دھوکے میں تلخی نے ہی اس کی لحد کا سودا کر لیا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی غم نہ سہنے کی خواہش کی قبر کو سجایا جا رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں نے اپنے ہمیشہ کے لئے ختم ہونے والے سفر کی سیج کے ہار پرو رہی تھی۔ خوشی کی عمر اتنی کم کیوں ہوتی ہے؟ غم کی عمر اتنی طویل ہی کیوں ہوتی ہے؟ غم خوشی پر بھاری ہی کیوں رہتا ہے؟ تلخی کی دھار شیرینی سے گاڑھی کیوں ہوتی ہے؟ اس کے سوالوں سے اس کا ابر زحمت سے دہشت زدہ وجود اب لرزنے لگا تھا۔ اس کے گرم آنسو اور بے چینی سے گیلا ہوتا بدن کپکپاہٹ کا باعث بننے لگا تھا۔ جانے شب کے کس پہر اس کو تر تکیہ پر نیند آ گئی، جہاں خوابوں کے دیوتا نے محبت کی بجائے کسک کا اعلان کر رکھا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments