عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس خارج، عدالتی کارروائی کا آنکھوں دیکھا حال

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کو معمول کے برخلاف 20 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوئی اور عمران خان بھی 15 منٹ تاخیر سے کمرہ عدالت میں پہنچے۔ وہ باڈی لینگویج سے بڑے پراعتماد دکھائی دے رہے تھے۔

جوں ہی جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھے تو ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا جمعے کے روز ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں معافی مانگنے کی غرض سے جانا دونوں کے لیے ’وِن وِن‘ سچوئیشن ہے۔

اس سوال پر عمران خان مسکرا دیے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آج آپ پھر روسٹرم پر جا کر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے پانچ ججز کو کچھ کہنا چاہیں گے تو اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ آج انھیں روسٹرم پر جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اپنا بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی ’طاقتور لوگوں‘ سے بات چیت کی خبریں گردش میں ہیں جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ سیاست دان کے بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سیاست دان بات چیت تو کیا کرتا ہے لیکن مجرموں کے ساتھ بات چیت نہیں ہو گی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ بات چیت ’سیاسی لوگوں‘ سے ہو گی۔

عمران خان سے پوچھا گیا کہ ایک انٹرویو میں جب ایوان صدر میں ’طاقتور لوگوں‘ سے مبینہ ملاقات کے بارے میں اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ جھوٹ بولتے نہیں ہیں لیکن وہ سچ کہہ نہیں سکتے تو عمران خان نے کہا کہ انھوں نے یہ بات اس تناظر میں کہی تھی کہ مذاکرات ابھی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے۔

عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ آپ جیسا بندہ بھی سچ کہنے سے ڈرتا ہے تو عمران خان نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ڈرتے کسی سے نہیں ہیں لیکن بات چیت کا کچھ نتیجہ تو سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیے

وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل

کیا نواز شریف کی واپسی کا دارومدار ’اسحاق ڈار کی کارکردگی‘ پر ہے؟

آڈیو لیکس: ’اب کسی کو وزیر اعظم ہاؤس میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی‘

ایک صحافی نے عمران خان کو اطلاع دینے کی غرض سے سوال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کو ان کا پاسپورٹ واپس کر دیا ہے تو عمران خان نے جواب دیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔

سیلاب زدگان کے لیے ٹیلی تھون کے ذریعے کو رقم اکھٹی ہوئی تھی اس کا کیا بنا، اس سوال پر عمران خان نے کہا کہ اگلے ہفتے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے صوبوں میں رقم تقسیم کر دی جائے گی۔

سائفر کی گمشدگی کے بارے میں جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اب تو ان کے خلاف ’بس یہی کیس بننا رہ گیا ہے کہ چائے میں روٹی ڈبو کر کیوں کھاتا ہے۔‘

عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر اظہار وجوہ کے نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف پیش نہیں ہوئے اور ان کی جگہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ وہ عدالت کو اس نکتے پر قائل کر سکیں کہ عمران خان نے اپنے بیان حلفی میں غیر مشروط معافی نہیں مانگی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کا پانچ رکنی بینچ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی اس دلیل سے متاثر نہیں ہوا۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پارٹی کی جانب سے سب سے پہلے کمرہ عدالت میں پہنچے۔ گذشتہ سماعت کے دوران پولیس اہلکاروں نے انھیں کمرہ عدالت میں داخل نہیں ہونے دیا تھا کیونکہ پولیس حکام کے بقول شاہ محمود قریشی کا نام اس لسٹ میں شامل نہیں تھا جنھیں رجسٹرار آفس کی طرف سے سپیشل پاسز جاری کیے گئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جب عمران خان کے خلاف توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لینے کا حکم دیا تو وہاں پر موجود ایک صحافی نے عمران خان کا بازو پکڑ کر انھیں مبارکباد دینے کی کوشش کی تاہم ان کی سکیورٹی پر مامور پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ نے اس صحافی کا ہاتھ جھٹک کر انھیں الگ کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments