زبان اور سوچ کا امتزاجِ تاثیر


عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کائنات میں لفظ ایجاد ہو یہ بات یہاں قابل توجہ ہے کہ لفظ ’ایجاد‘ ہوا نہ کہ اس کی ’دریافت‘ کی گئی۔ اور جو شے اس کے ارتقاء کی موجب بنی وہ ایک ٹوٹا پھوٹا سماج تھا جس نے برہنہ شعور انسانی ( جو ابھی ارتقائی عوامل میں تھا) کو احساس تنہائی سے نکال کر جذبۂ ربط و تعلق کی خلعت سے سرفراز کیا۔ رفتہ رفتہ ٹیڑھی ترچھی اور پر پیچ راہ آگہی پر گامزن انسان ایک ان دیکھی اور انجانی منزل کی طرف بڑھتا گیا۔

ایک طرف شعور اور زبان کا تعلق استوار ہوتا گیا تو دوسری طرف باقی جنسیات اور انسانیت کے درمیان آشتی کا تعلق کمزور ہوتا گیا۔ لہٰذا کائنات میں سب سے پہلے زبان وجود میں آئی یعنی اگر کسی شے کا حتمی وجود تصور کیا جاسکتا تھا، جو کہ باقی تمام مادے کے عناصر کی ماہیت پر دلیل تھی، تو وہ زبان ہی تھی۔ اگر مذہب کے عقائد و نظریات کو مدنظر رکھا جائے تو ایک ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی حتمی مخالفت بھی بجا نہیں ہے۔ ہاں اس کو منطق سے جدا کر کے پرکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ سراسر ترجیحی معاملہ ہے۔ یہاں زبان اور سوچ کے درمیان منطقی آغاز و مآل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے جو پیدائش ہی سے بولنے کی سکت سے محروم ہیں وہ اس لیے نہیں کہ ان کی زبان نہیں ہے بلکہ وہ اس وجہ سے بول نہیں سکتے کہ انہوں نے کوئی لفظ سنا ہی نہیں ہوتا جس کو وہ اظہار کے لیے استعمال کریں۔ چنانچہ زبان اور انسانی ذہن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن آج سائنسی تحقیق کے نتیجے میں بے حس و حرکت ’سٹیفن ہاکنگ‘ کائنات کے راز منکشف کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اس عام اور حقیر سے نظریے کی بھر پور مخالفت کرتی ہے۔ لیکن انسان ان بنیادی حقائق کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو غیر فانی ہیں۔ اسی لیے میں یہاں مجموعی انسانی معاشرے کا ذکر کر رہا ہوں۔

انسان کا خیال یا سوچ اس کی زبان کو ایک اشتعال مہیا کرتے ہیں۔ جب تک ذہن اور تخیل ماؤف ہے کچھ بھی درست بولنا ناممکن ہے۔ لیکن اس خیال کی عملی توضیح اس وقت تک بھی نہیں کی جا سکتی جب تک الفاظ موجود نہ ہوں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ زبان یا الفاظ سے اجنبیت، سوچ پر گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام متوسط ذی شعور بیرون ملک انجان زبان سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی سوچ اس کی زبان کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ سب سے پہلے اشاروں کنایوں کا سہارا لیتا ہے۔ اور پھر رفتہ رفتہ زبان بھی سیکھ لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے نہ بول سکنے کی کیفیت اس کی سوچ پر بہت گہرا اثر نہیں ڈالتی۔ ہاں البتہ جذباتیت کا شکار ہو کر یعنی احساس کمتری وغیرہ سے دماغ کافی حد تک متاثر ہوتا ہے۔

اس کے مقابل اگر دیکھا جائے تو انسانی سوچ، انسانی زبان پر گہرا اثر رکھتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک عام گنوار آدمی جب تک مخصوص و محدود دائرہ کار میں رہ کر زندگی گزار رہا ہوتا ہے تو اس کا لہجہ، اس کی بول چال صرف اس سرحد تک ہی موقوف ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ ان حدود سے نکل کر مہذب تہذیبوں میں جاتا ہے اور اسے ایک نیا تاثر ملتا ہے تو اس کی سوچ یکسر بدل جاتی ہے۔ اس طرح وہ الفاظ یا وہ زبان جو وہ پہلے استعمال کر رہا ہوتا ہے اور ذہن میں بدلاؤ کے باعث وہ ان معیوب الفاظ کو ترک کر کے معاشرے کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

اپنی زبان کو سوچ سے متاثر پا کر اسے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ نئے سماج کے قوانین اس کے ذہن میں پیدا کرتے ہیں۔ اس تمام عمل سے اس کی شخصیت بھی بہت متاثر ہوتی ہے۔ اگر اسی کے الٹ دیکھا جائے تو جب ایک پروقار تعلیم یافتہ شخص کسی گنوار اور اجڈ معاشرے کا حصہ بنتا ہے تو اس کو اپنی سوچ انہی لوگوں کے موافق بنانا پڑتی ہے۔ اور یہ اس کی پر امن زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ وگرنہ وہ کم از کم زندہ تو نہیں رہ سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے افلاطون کی ”تمثیل غار“ ہے۔ اس کٹھن عمل کے دوران اس کے تمام اندرونی و بیرونی عناصر بے اعتدالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اس کی زبان ہوتی ہے۔

اس تمام حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سوچ پر زبان کے تاثر کی نسبت انسان کی سوچ اس کی زبان کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس سب کا تعلق علم، ادراک اور شعور پہ ہے۔ لیکن ان سب کا تعارف ایک علیحدہ بحث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments