کیا عمران خان لانگ مارچ کی آڑ میں اسمبلی واپس جانے کی تیاری کر رہے ہیں؟


پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر اصرار کیا ہے کہ ان کی پارٹی کسی قیمت پر بھی قومی اسمبلی میں واپس نہیں جائے گی کیوں کہ موجودہ حکومت منتخب نہیں بلکہ ’کریمنل‘ ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کیے گئے پارٹی کے دس ارکان اسمبلی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ان کے استعفے ناجائز طور سے منظور کیے گئے ہیں، اس لئے انہیں اسمبلی میں واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ ہم بدستور ایم این اے ہیں۔

شیریں مزاری، علی محمد خان اور فرخ حبیب سمیت دس ارکان نے اپنے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے استعفے ناجائز طور سے منظور کیے گئے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کو اس طرح استعفے قبول کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا لیکن بیرسٹر علی ظفر عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے استعفے دینا چاہتی ہے یا اسمبلی میں واپس جا کر سیاسی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل کا موقف تھا کہ پارٹی کے 123 ارکان نے مشترکہ طور سے اس شرط پر استعفے دیے تھے کہ ان کے استعفے اکٹھے منظور کیے جائیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی قسطوں میں استعفے منظور کر کے اپنے قانونی اختیار سے تجاوز کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔ البتہ اگر ڈی سیٹ کیے جانے والے ارکان بیان حلفی داخل کروا دیں کہ وہ پارٹی پالیسی سے متفق نہیں ہیں اور اسمبلی واپس جانا چاہتے ہیں تو ان کی درخواست پر غور کیا جاسکتا ہے۔

اسی مکالمہ کے دوران بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی کہ عدالت درخواست دہندگان کو ڈی سیٹ کرنے کا نوٹی فکیشن منسوخ کردے۔ پارٹی بعد میں فیصلہ کرے گی کہ اسے اسمبلی میں واپس جانا ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ واپس جانے کا فیصلہ کر لیا جائے۔ تاہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ عدالت تحریک انصاف کی سیاست میں آلہ کار یا سہولت کار نہیں بنے گی۔ یا تو جن اراکین کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ اسمبلی واپس چلے جائیں یا پھر درخواست دہندگان یہ تسلیم کریں کہ وہ پارٹی کی استعفیٰ سیاست سے متفق نہیں ہیں اور اسمبلی میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو اختلافات عدالتوں کی بجائے پارلیمنٹ میں ہی طے کرنے چاہئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں استعفوں کی منظوری کے خلاف پٹیشن اور بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا آپشن کھلا رکھا ہوا ہے۔ تاہم اس دوران چونکہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر کے حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، اس لئے عمران خان یا پارٹی کے نمائندے اسمبلی واپس جانے کے بارے میں کھل کر اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے جن ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہو گئے ہیں اور انہیں رکنیت سے محروم کر دیا گیا ہے، وہ بھی کسی بھی صورت اب رکنیت بحال کروانا چاہتے ہیں تاکہ اگر پارٹی اسمبلی میں واپس جانے کا تہیہ کر لے تو اس کے تمام ارکان ایک بڑے پارلیمانی گروہ کی صورت میں اسمبلی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکیں۔ لگتا ہے تحریک انصاف بھی موجودہ سیاسی منظر نامہ کی اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے کہ قومی اسمبلی میں واپس جائے بغیر موجودہ سیاسی تعطل کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

عمران خان دعویٰ بھی کرتے ہیں اور شاید وہ اس گمان میں بھی مبتلا ہیں کہ وہ اس بار اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر کے سیاسی منظر نامہ تہ و بالا کر سکتے ہیں۔ تاہم عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے نئے انتخابات کا جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، کسی مضبوط اور قابل قبول سیاسی معاہدہ کے بغیر اسے حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ شدید عوامی دباؤ کی وجہ سے اگر شہباز شریف استعفی ٰ دے بھی دیں تو بھی تحریک انصاف کی عدم موجودگی میں عبوری حکومت کے قیام کا فیصلہ موجودہ وزیر اعظم تحریک انصاف کے ایک منحرف رکن راجا ریاض کے ’مشورے‘ سے ہی کریں گے۔

کیوں کہ اسپیکر قومی اسمبلی انہیں اپوزیشن لیڈر تسلیم کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کو اتحادی حکومت کے ترمیم شدہ انتخابی قانون کے تحت موجودہ الیکشن کمیشن کے زیر انتظام ہی انتخابات میں حصہ لینا پڑے گا جس کے چیف الیکشن کمشنر کو عمران خان کسی بھی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ عمران خان کے خیال چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا، نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ایجنٹ ہیں۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو لانگ مارچ کا جو واحد مقصد بتایا جاتا ہے، اس کے منظور ہونے کے باوجود عمران خان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور انہیں ایک ناپسندیدہ انتظام میں انتخاب میں حصہ لینا پڑے گا۔ عمران خان کو یہ صورت کسی حالت میں قبول نہیں ہوگی۔ تاہم حکومت سے محروم ہونے کے بعد اس صورت حال کو تبدیل کروانے کا راستہ اسمبلی سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ عدالت سیاسی فیصلوں میں حصہ دار نہیں بنے گی۔

یہ معاملات پارلیمنٹ میں ہی طے کیے جائیں۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے یہ ریمارکس سامنے آچکے ہیں جن میں انہوں نے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس جاکر کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ امکان موجود ہے کہ تحریک انصاف کسی مرحلہ پر ملکی عدلیہ کے مشورہ کو عذر بنا کر قومی اسمبلی میں واپس چلی جائے۔ تاہم شاید اس سے پہلے عمران خان کی خواہش ہوگی کہ انتخابی قوانین، الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کے بارے میں ان کی کچھ شرائط مان لی جائیں۔ شاید لانگ مارچ کا ’جھانسہ‘ بھی حکومت پر بعض سیاسی مطالبات منوانے کے لئے دباؤ بڑھانے کے نقطہ نظر سے دیا جا رہا ہو۔

ورنہ 2014 کے لانگ مارچ اور طویل دھرنا کے تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے کسی نئے لانگ مارچ کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ 2014 میں تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں 16 ہفتے طویل دھرنا دیا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ و وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ کرنے کے باوجود عمران خان اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ حالانکہ انگلی اٹھانے والا امپائر بھی عمران خان کے ساتھ ملا ہوا تھا لیکن سیاسی حالات اور پارلیمنٹ میں سیاسی یک جہتی نے امپائر کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دیا تھا۔

اب تو عمران خان روزانہ کی بنیاد پر عسکری قیادت کو ’نیوٹرل‘ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں لیکن ان کی آہ و بکا رائیگاں جا رہی ہے۔ آرمی چیف نے گزشتہ روز ہی واشنگٹن میں ظہرانے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج نے سیاست سے علیحدہ رہنے کا مصمم ارادہ کیا ہے۔ اب سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔

اس دوران صدر مملکت عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں بھی سیاسی مفاہمت کی بات کی ہے۔ اگرچہ لگ بھگ ساڑھے چار سو ارکان کا ایوان صدر کی تقریر کے دوران خالی پڑا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دس پندرہ ارکان ہی اس موقع پر پارلیمنٹ کے اجلاس میں حاضر تھے۔ گویا تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے علاوہ اس کے سینیٹرز نے بھی اپنے ہی ’صدر‘ کی تقریر سننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) نے احتجاجاً اجلاس میں شرکت نہیں کی اور صدر کی تقریر کے بعد عارف علوی کے خلاف غیر آئینی طور سے قومی اسمبلی توڑنے کی سمری جاری کرنے کے فیصلہ پر مواخذہ کرنے اور آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔

اس پراگندہ سیاسی ماحول میں بھی صدر نے سیاسی اختلاف ختم کر کے ملک کو قابل اعتبار انتخابات کی طرف لے جانے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر انتخابی نتائج کو مسترد کیا جاتا ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں کو یہ صورت حال ختم کرنے کے لئے مل جل کر انتخابی طریقہ کار طے کرلینا چاہیے۔ عارف علوی کی عمران خان سے شیفتگی اور تحریک انصاف سے وابستگی کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے یہ تقریر پارٹی کے چئیر مین اور اپنے لیڈر عمران خان کی مرضی و منشا کے بغیر کی ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کی طرح صدر عارف علوی کی تقریر سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی مفاہمت کا ہر دروازہ بند نہیں کرنا چاہتی اور قومی اسمبلی میں واپس آ کر انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں کسی قابل قبول معاہدہ کا حصہ بننے پر تیار ہوگی۔ تاہم اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا ہے۔ کیا عمران خان واقعی اس حکومت کو کسی مفاہمت پر مجبور کرسکیں گے اور انہی سیاسی لیڈروں کے ساتھ مواصلت کر لیں گے جنہیں وہ ’مجرموں، ڈاکوؤں اور چوروں‘ کا ٹولہ قرار دیتے ہیں۔

سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، عمران خان کا دور حکومت اور ہر پل تبدیل ہوتا سیاسی موقف اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ سرعت سے سیاسی پوزیشن تبدیل کرنے ہی کی وجہ سے عمران خان کو ’یوٹرن‘ لینے والا لیڈر کہا جانے لگا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کامیاب لیڈر کو یوٹرن لینے پر تیار ہونا چاہیے۔ شاید لانگ مارچ کے جلو میں عمران خان اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے یوٹرن کی تیاری کر رہے ہیں۔ لانگ مارچ نکالا گیا تو اسے اسمبلی میں واپسی کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عمران خان اور تحریک انصاف نے بلند و بانگ سیاسی نعروں اور دعوؤں سے جو ماحول پیدا کیا ہے، اس میں انہیں کسی قابل قبول فیس سیونگ کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت میں شامل پارٹیاں آسانی سے یہ موقع فراہم کریں گی۔ وزیر اعظم کی پریس کانفرنس اور بلاول بھٹو زرداری کی ٹویٹ سے تو اس کا اشارہ نہیں ملتا۔ شاید اسی لئے عمران خان کو سیاسی سپیس حاصل کرنے کے لئے لانگ مارچ کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments