سوات ایک دہائی بعد


یہ محض اتفاق ہے یا پھر ارتقائی مرحلہ کہ جب 9 اکتوبر 2012 کو طالبان نے اسکول وین پر فائرنگ کی جس میں ان کا اصل ہدف ایک شخصیت کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا جو تعلیم کی بات کرتی تھی اور طالبان کے ظلم کے خلاف لکھتی تھی۔ وہ شخصیت جو یہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی بچہ ہو یا بچی وہ اعلی تعلیم حاصل کریں اور تعلیم سے دور نہ ہو۔ خوش قسمتی سے حملہ آوروں کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی جس شخصیت کو یہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے تھے آج وہ شخصیت نہ صرف یہ کہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہے بلکہ دنیا بھر میں ایک سلیبریٹی ہے۔

جسے دنیا کے ہر کونے میں لوگ جانتے ہیں اور قدر و احترام بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ تعلیم کی بات کرتی ہے۔ شاید یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے یا پھر شعور کی کمی کہ ہم نے ایک عرصے تک توانائی صرف ان بحثوں پر خرچ کی کہ ملالہ غیر ملکی سازش تھی یا یہ کہ ملالہ ملک کو بدنام کرنا چاہتی تھی وگرنہ ملالہ کے ساتھ جو دیگر طالبات زخمی ہوئی تھی اس کو اس قدر سہولت اور پذیرائی کیوں نہیں ملی صرف ملالہ کو کیوں، مگر سوال تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا خواب کس کا تھا، اپنی ڈائری میں تعلیم اور طالبان کے حوالے سے کون لکھتی تھی مگر نہیں ہر صورت یہ ایک غیر ملکی سازش تھی۔

حالات اب بدل چکی ہے آج وقت کے تقاضے کچھ اور ہے۔ 10 اکتوبر 2022 کو یعنی ٹھیک ایک دہائی بعد اسی قسم کا ایک اور واقعہ سوات کے علاقہ مینگورہ میں پیش آیا اور اس دفعہ سوات کے عوام نے ایک دہائی سے پہلے والا عمل کے بالکل بر خلاف عمل دکھایا۔ اس واقعے کے خلاف سوات میں طالبان دہشتگردوں اور ریاست پاکستان میں موجود ان کے پشت پناہوں کے خلاف ایک زبردست عوامی احتجاج ہوا جس میں لوگوں کے جم غفیر نے شرکت کی۔ یہ احتجاج واضح کرتا ہے کہ عوام نہ تو اب مذہبی انتہا پسندی و دہشتگردی کو مزید برداشت کرنے کو تیار ہیں بلکہ ریاستی دہشتگردی اور ان کے پشت پناہوں کی بھرپور مخالفت بھی کرتے ہیں۔

اس ایک دہائی میں حالات بہت بدل چکے ہیں اس بدلتے ہوئے حالات کے پیچھے ارتقائی قوت کار فرما ہے اور اس خطے میں عوام اب جان چکے ہیں کہ دراصل طاقتور حلقوں اور ان کے پشت پناہوں کی کیا ترجیحات ہیں۔ یہ عوامی احتجاج ان دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ترجیحات کے خلاف تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ طاقتور لوگ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں گے یا نہیں۔ جب دسمبر 2016 میں آرمی پبلک اسکول میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا اس میں کون ملوث تھے یہ تو شاید لوگ جان گئے مگر کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی بھی یا نہیں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور اس کے پیچھے کس کے مفادات تھے۔

یہ واضح ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے واقعہ کے ذمہ داران کے خلاف نہ کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی یہ معلوم ہوسکا کہ یہ واقعہ کس مقصد کے لئے کیا گیا تھا۔ تاہم اس واقع نے بہت سارے لوگوں کو دہشتگردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان ظلم و جبر نے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ آخر یہ ظلم جبر اور دہشتگردی کیوں؟ جب لوگ سوچنے لگے تو کسی نہ کسی نتیجے پر ضرور پہنچے ہوں گے ۔

جب ہم ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اس تاریخ میں یہ چیز ضرور دیکھنے کو ملتی ہے کہ ان ملکوں میں بھی ظلم جبر اور بربریت کی حکمرانی رہی ہے اور عوام پر عیاش اور ظالم لوگ مسلط تھے اور انہوں نے اپنے رعایا پر اپنا رعب جمانے اور اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے بہت ظلم ڈھاتے رہتے تھے، اس ظلم سے لوگوں کو خوف زدہ کیا، سوال کرنے والوں کو سختی سے کچل دیے۔ لیکن ظلم کی حکمرانی دیر تک نہیں چلتی لوگوں کو احساس ہوا اور سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ہم ہر وقت اندھیرے میں نہیں رہ سکتے بلکہ ہمیں کوشش کرنی ہوگی ان تاریکیوں سے باہر نکلنے کے لئے تب جاکر ہم روشنی کو پائیں گے۔ جب یہ احساس ہونے لگا کہ ہم اس ظلم کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتے ہیں تو اس کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں اور عوام نے حکمرانوں کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کیا اور ان کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا۔ اس عوامی ردعمل نے حکمرانوں کو اپنے فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔

اس دہائی میں پاکستان کے اندر بھی کئی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے طالبان دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ظلم، بربریت، اور قتل عام کے خلاف آواز بلند کیا۔ ان تحریکوں میں بنیادی نعرے بھی یہی تھے کہ قتل عام اور غارت گری کو بند کیا جائے۔ بعض تحریکوں میں ریاستی دہشتگردی کے خلاف بھی آواز اٹھیں کہ جس میں عوام کی بڑی اکثریت نے شرکت کی اور یہ نعرہ بھی بلند کیا کہ جن علاقوں میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن کیے جا رہے ہیں یہ دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن نہیں بلکہ اس میں عوام کو قربان کیا جا رہا ہے اور اس کے نام پر ڈالر بٹورتے ہیں۔

یہ نعرہ کس حد تک صحیح یا غلط تھا یہ اہم نہیں بلکہ عوام نے یہ نعرہ کیوں لگایا یہ اہم تھا، یہی وہ حالات تھے کہ عوام اپنے حقوق اور تحفظ کی بات کرنے لگے اور ملک کے دیگر لوگوں نے صرف تصویر کے ایک رخ پر بات کرنے کی بجائے دوسرے رخ پر بھی بات کرنے لگے۔ یہ ارتقائی مرحلہ تھا کہ عوام کو احساس ہونے لگا کہ یہ ظلم اور دہشتگردی کب تک جاری رہے گی، کب تک ہم جنازے اٹھائے پھرتے رہیں گے اس لئے اب انہوں نے لاشوں کو دفنانے کی بجائے سڑکوں پر رکھ کر حکمرانوں سے سوالات کرنا شروع کیا کہ ہم غیر محفوظ کیوں ہے اور حکمرانوں کو یہ واضح کر دیا کہ یہ کھیل تماشا اب بند ہونا چاہیے اور ہم اسے کسی صورت مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اب آگے دیکھتے ہیں کہ عوام نے حکمرانوں کو اپنی فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور تو کیا ہے مگر اہم یہ ہے کہ حکمران اپنی فیصلوں میں تبدیلی لائیں گے یا پھر اسی ظلم کو جاری رکھے گا، اگر جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے تو اس دفعہ ضرور ناکام ہوں گے کیونکہ عوام کی بھاری اکثریت اب مزاحمتی سیاست کی طرف جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments